تحریک انصاف کرے تو کیا؟ پہلے تو الٹی تدبیریں بھی سیدھی پڑرہی تھیں۔ سائفر کی سازش کی داستان ہوشربا ہو، قومی اسمبلی سے استعفیٰ ہو، پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل ہو یا پھر 9 مئی کی بیرکوں پہ یلغار، سبھی اسکے گلے تو پڑیں مگر سیاسی محاذ آرائی کیلئے ایندھن فراہم کرکے۔ عمران خان کا ہر ایڈونچر اسکی اونچی اڑان کے بڑھاوے کے کام آیا۔ گو اس مہم جوئی میں صف اول کی زیادہ تر قیادت دم ہار گئی یا پھر جبرئیت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ لیکن عوامی حمایت تھی کہ بلندیوں کو چھوتی چلی گئی۔ عمران خان کرشماتی ہیرو سے مسیحا اور مرشد کے بلند و بالا مقام پہ جا بیٹھے لیکن پا بہ جولاں ہو کر۔ قیادت کا خلا پر بھی کیا تو موقع شناس وکلا نے جو خان کو سیاست سکھاسکے، نہ اسکا مقدمہ صحیح طور پر لڑسکے۔ تحریک انصاف اور اسکے کارکنوں کیلئے ابتلا کا دور ختم ہونے کو نہ آیا اور وہ کہیں بلوں میں چھپ کر گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ قیادت کا بحران تو پیدا ہوا جسکا شاخسانہ تحریک انصاف کے بے ڈھنگے انتخابات کے خمیازے کی صورت برآمد ہوا۔ عدلیہ نے اندھا انصاف کیا اور بلا چھین کر رائے دہندگان کے بڑے حلقہ انتخاب کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔ عدلیہ تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھینے بغیر بھی دوبارہ پارٹی انتخابات کا کہہ سکتی تھی۔ لیکن بطور جماعت اسکا پارلیمانی انتخابات سے دیس نکالا ہوگیا۔ امیدوار کھڑے ہوسکتے تھے، نہ پارٹی کا جھنڈا لہراسکتے تھے اور نہ عمران خان کا نعرہ مستانہ بلند کرسکتے تھے۔ کارکن اور ووٹرز بس 8 فروری کے انتظار میں دبک کر بیٹھے رہے اور پھر انہوں نے سب کو مات دی تو ایسی کہ نواز شریف کو وکٹری اسپیچ ملتوی کرنا پڑی اور خود نواز شریف کو مائنس کرنے کیلئے جیت کے آٹے میں نمک زیادہ ہی ڈال دیا گیا۔ انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور راتوں رات فارم 45 کی سرجری کر کے فارم 47 کے ذریعہ عوامی مینڈیٹ کا سرقہ کردیا گیا۔ ووٹ چوری تو سنی تھی، نتیجہ چوری پہلی بار دیکھی۔ مینڈیٹ اگر 80 فیصد ٹھیک بھی تھا تو 20 فیصد کی ملاوٹ نے سارے انتخابی نتائج کو مشکوک بنادیا۔ عمران خان کو اور کیا چاہیے تھا؟ ایک مستقل وجہ نزاع۔ اخلاقی فتح بھی اور حکومت چلانے کی کٹھن مشق کے درد سر سے خلاصی بھی۔ معاملہ نتائج کی درستی پر ختم ہوجاتا تو سیاسی بحران ٹل جاتا اور حکومت کیلئے کچھ اخلاقی جواز بچ رہتا لیکن اس میں آئے روز شدت کیلئے بھاڑ جھونکا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کا نشان بلا کیا چھینا کہ ریزروز سیٹس بھی ہاتھ سے گئیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کی نتائج میں ردوبدل کی درخواست کی شنوائی تو کیا ہونا تھی، اُلٹا دوبارہ گنتی میں اسکی نشستیں کم ہوتی جارہی ہیں اور پارٹی کو لینے کے دینے پڑگئے ہیں۔ دوبارہ گنتی کروانے کا مطالبہ اسے مہنگا پڑگیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کوئی خود کش حملہ کرتے، انکی نااہلی کی درخواست پر طلبی کیا ہوئی کہ انہیں سر کے بل اُسی وزیراعظم کی قدم بوسی کیلئے جانا پڑا جسے وہ مینڈیٹ چور وزیراعظم قرار دے چکے تھے۔ چاہے پی ٹی آئی کے نوجوانوں کو کیسے ہی برا لگے، عمران خان کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا کہ حکومت چلانے کا امتحان ملک میں نہ سہی ایک صوبے میں انکی جماعت کے سر آن پڑا ہے اور باگ ڈور دینی بھی پڑی تو ایسے ہاتھ میں جسے قرار ہے نہ کوئی سوجھ بوجھ۔ بلا چھینے جانے کے بعد پارٹی قیادت نے پے در پے حماقتیں کیں، کبھی مولانا شیرانی کی پارٹی، تو کبھی بلے باز کا دھڑا تو وحدت المسلمین اور آخر میں سنی اتحاد کونسل جسکا انتخابی کھاتہ ہی بند تھا۔ نتیجتاً تحریک انصاف ساری کی ساری ریزروز سیٹس کھو بیٹھی جنکی بنیاد پارٹی کو پڑنے والے ووٹ کی بنیاد پر نہیں منتخب اراکین کے تناسب سے ہے۔ پختونخوا اسمبلی میں جہاں دوسری پارٹیاں شاید دو تین نشستیں لے سکتی تھیں، سب لے اُڑیں۔ متناسب نمائندگی کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کہیں ہوسکتی تھی جو یہاں کی گئی۔
اب پی ٹی آئی کرے تو کیا جب ہر تدبیر اُلٹی پڑنی شروع ہوجائے؟ پارٹی انتخابات کے باوجود پی ٹی آئی ایک منقسم ہاؤس ہے جس میں عجیب و غریب اور طرح طرح کی متضاد بولیاں بولنے والوں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے والوں کی کمی نہیں۔ بانی مقدمات کے انبار میں پھنسا ہے اور پارٹی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سسٹم سے نکلنے کا خمیازہ یہ بری طرح سے بھگت چکی۔ سسٹم میں واپسی کرنی ہے یا گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دینا ہے۔ دونوں کام بیک وقت چلنے والے نہیں۔ اوپر سے مرشد کسی سیاسی اسٹیک ہولڈر سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں، جبکہ باہر بیٹھے بھگوڑے مجاہدین ایجنٹ پروکٹیٹرز کے طور پر ممولے کو شہباز سے لڑانے پہ اُکسائے چلے جارہے ہیں۔ انہیں تحریک انصاف اور جمہوری تسلسل سے غرض نہیں۔ غرض ہے تو صرف نراج سے کہ وہ سوشل میڈیا پہ خوب بکتا ہے۔ ہائبرڈ وار کی پانچویں پیڑھی کے بھگوڑے اپنے ہی ناخداؤں پہ پلٹ پڑے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں نشستیں کھونے کے بعد یا پھر گنتی اُلٹی پڑنے سے تحریک انصاف 80 نشستیں جیتنے کے دعویٰ سے 20 نشستوں کو بچانے کی تگ و دو میں پھنستی نظر آرہی ہے۔ یا پھر اسے انتخابی ٹربیونلز کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر حکومتی اتحاد اپنے قدم جماتا چلا جائے گا۔ دوبارہ انتخابات کا امکان دور دور تک نہیں اور اسمبلی کو مچھلی منڈی بنانے سے کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں۔ اب بنیادی چیلنج تحریک انصاف کیلئے اپنی بقا کا ہے۔ اسکے لیے یہ حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ ضرور اُٹھاسکتی ہے، لیکن مخالف کیمپ میں اختلافات سے فائدہ اٹھا کر اور لچکدار سیاسی حکمت سے۔ تحریک انصاف کیلئے ضروری ہے کہ اپنی جگہ بچانے کیلئے اپنی بقا کی خاطر یہ اپنے سب حریفوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے بڑے حریف کے خلاف چھوٹے حریفوں سے صلح جوئی کرے۔ سول سوسائٹی سے اپنا بغض ختم کرے اور جمہوری کلچر اپنائے۔ ملک میں بحران جلد ختم ہونے والا نہیں، حکومت اندر سے کمزور اور مقتدرہ کی مرہون منت ہے جسکے پاس معاشی و اداراتی بحران کو حل کرنے کا نسخہ اسکے پاس نہیں، آئی ایم ایف کے پاس ہے۔ شہباز حکومت کے پاس کوئی نئے نسخے نہیں، نہ ہی کوئی پذیرائی کا دم خم۔ صرف عمران خان ہی مائنس نہیں ہوئے۔ نواز شریف اور بلاول بھٹو بھی مائنس کر دیے گئے ہیں۔ موقع ملا بھی ہے تو آصف علی زرداری اور شہباز شریف کو یا پھر پنجاب میں مریم نواز کیسے کھیلتی ہیں کہ ن لیگ پھر سے بحال ہو جائے جو کافی مشکل لگتا ہے۔ بہتر ہے کہ عمران خان لچک دکھائیں ایک قدم پیچھے ہٹیں اور سسٹم میں واپسی کی حکمت پہ کار بند ہوں۔ وگرنہ جو بچ رہا ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)