ایک معمر خاتون آہستہ آہستہ ڈائس پر آئیں اور چند فقروں میں وہ اعلان کیا جس نے پورا منظر ہلا کر رکھ دیا۔ سب طلبہ اپنی سیٹوں سے اچھل پڑے، بے تحاشا خوشی سے وہ چیخنے ،چلانے لگے، بہت سوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، کچھ نے باقاعدہ ناچنا شروع کر دیا۔ روتھ گوٹیسمین نے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا کہ وہ ایک ارب ڈالر کا عطیہ میڈیکل کالج کو دے رہی ہیں اور اب سے طلبہ کو آئندہ کسی بھی قسم کی ٹیوشن فیس نہیں دینا پڑے گی۔ یاد رہے کہ اس میڈیکل کالج یا سکول آف میڈیسن سائنسز کی سالانہ فیس ساٹھ ہزار امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ دو ہفتوں سے یہ دنیا بھر کے میڈیا اور نیوز ویب سائٹس پر ایک تہلکہ خیز خبر بنی ہوئی ہے۔ روتھ گوٹیسمین کا یہ عطیہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے کسی ادارے کو دیا جانے والا تیسرا بڑا عطیہ ہے، سب سے بڑا عطیہ مائیکل بلومبرگ نے پونے دو ارب ڈالر کے قریب جان ہاپکنز یونیورسٹی کو دیا تھا۔ ایک بڑا فرق مگر یہ ہے کہ روتھ گوٹیسمین کوئی ارب پتی خاتون نہیں۔ درحقیقت یہ اسی میڈیکل کالج سے وابستہ پرانی استاد ہیں، یہ یہاں ریسرچ کرتی اور سکھاتی رہیں، بعد میں یہ ٹرسٹیز میں شامل ہوگئیں۔ روتھ گوٹیسمین کو یہ پیسے وراثت میں ملے، جب پچھلے سال ان کے معمر خاوند دنیا سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے اپنی وفاشعار بیوی کو بتایا کہ ان کے پاس ایک ارب ڈالر کے شیئرز کی رقم ہے، تم جس طرح چاہو اسے استعمال کرو۔ سینڈی کے نام سے مشہور ان کے خاوند نے چالیس پچاس سال پہلے مشہور بزنس مین وارن بفٹ کے کہنے پر یہ انویسٹمنٹ کی تھی جووقت گزرنے کے ساتھ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ روتھ گوٹیسمین نے سوچ بچار اور اپنی اولاد سے مشورے کے بعد اس رقم کو البرٹ آئن سٹائن میڈیکل کالج برونکس، نیویارک کو دینے کا فیصلہ کیا۔ اب ٹیوشن فیس ختم ہوجانے سے توقع ہے کہ طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوگا، مگر اب زیادہ لائق طلبہ اس طرف کا رخ کریں گے۔ ویسے تو ان کی اولاد کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، جنہوں نے اپنی ماں کو اس چیریٹی کی ترغیب دی، یہ واقعہ پڑھ کرہم سوچتے رہے کہ مغرب میں عطیات دینے کی روایت کیسی توانا اور بھرپور ہے۔ وہاں کے بڑے بڑے سرمایہ دار اس طرح کے عطیات یا تو براہ راست کسی ادارے کو دے دیتے ہیں یا پھر وہ ایسے ٹرسٹ بنا دیتے ہیں جن کی انویسٹمنٹ کی رقم سے نادار لائق طلبہ کی مدد کی جا سکے۔چند سال قبل اس حوالے سے غور وفکر کے بعد ہم نے لاہور میں الامین اکیڈمی بنانے کا تجربہ کیا، جس میں لائق طلبہ کو بغیر فیس کے سول سروس، مقابلے کے امتحانات کے لئے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس تجربے کا بہت اچھا رسپانس آیا۔ اور نامی گرامی جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب اور ہردل عزیز جناب سہیل وڑائچ صاحب کی قیادت میں زکوٰۃ اور صدقات کی بنیاد پر 122 سی ایس پی اور پی ایم ایس آفیسر بنا چکے ہیں۔
ایک مشہور قول ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو دنیا کی خوبصورتی سے متاثر ہیں اور اس سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ ایثارپیشہ مخلص لوگ ہیں جو اس دنیا کو خوبصورت بنانا چاہتے ہیں، اسی میں جتے رہتے ہیں کہ دنیا میں دوسروں کے لئے آسانیاں اور خوبصورتی پیدا کی جائے۔ ظاہرہے ہر پرعزم آدمی اس دوسری صف میں شامل ہونا چاہے گا۔ سجاد چیمہ صاحب نور تھیلی سیمیا فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں۔ یہ ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن ہے، جس کا بنیادی کام تھیلی سیمیا سے متاثر لوگوں کی صحت یابی اور ہیلتھ مینجمنٹ کیلئے کام کرنا ہے۔ پاکستان میں تھیلی سیمیا ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہزاروں بچے اس سے متاثر ہیں۔ ان کے لئے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو قارئین تھیلیسما سے واقف نہیں، انہیں مختصر الفاظ میں بتاتے چلیں کہ یہ ایک خون کی بیماری (بلڈ ڈس آرڈر)ہے، ایک ایسا موروثی مرض جو جینز کے ٹرانسفریعنی والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس مرض کا کوئی علاج نہیں، صرف اس کی مینجمنٹ ہوسکتی ہے۔ اکثر سنا ہوگا کہ فلاں کی ہیمو گلوبن یا ایچ بی زیادہ یا کم ہے۔ ہیموگلوبن دراصل ایک پروٹین ہے جو ریڈ بلڈ سیلز میں موجود ہوتی ہے۔ اسی کے ذریعے ریڈ بلڈ سیلز پورے جسم میں آکسیجن کو پھیلاتے ہیں۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں میں قدرتی طور پر بہت کم صحت مند ہیموگلوبن پروٹین پیدا ہوتی ہے اور ہمارا بون میرو(ہڈیوں کا گودا)بہت کم صحت مند ریڈ بلڈ سیلز پیدا کرتا ہے۔ زیادہ شدید مرض میں مریض کو باقاعدگی سے خون لگانے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ اسے باہر سے ہیموگلوبن اور ریڈ بلڈ سیلز مل سکیں۔ کم شدت کے مریضوں کو دو یا تین ماہ بعد اور شدید قسم کے مریضوں کو دو ہفتے بعد خون کی بوتل لگانا پڑتی ہے۔ ان کے باقاعدگی سے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں تاکہ ہیموگلوبن اور ریڈسیلز کو مانیٹر کیا جا سکے۔ ایک اور اہم مسئلہ آئرن کی زیادتی کا بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے آئرن بلڈ میں بھی ہے اور خون کی بوتلوں کے ذریعے بھی آئرن جسم میں آیا تو بہت بار یہ ضرورت سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ آئرن کی زیادتی کئی امراض کا باعث بنتی ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو آئرن اوورلوڈ کم کرنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مریض کو تاحیات ٹریٹمنٹ کرانے کی حاجت رہتی ہے۔ نور تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ہمارے ملک میں شدید ضرورت ہے۔ ایسے اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں اور رضاکاروں کو ان کے ساتھ جڑنا چاہئے۔