• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے یہ سوال کرکے کہ ’’…یا جمہوریت بچائیں یا پاکستان؟‘‘ ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ الطاف حسین نے خود ہی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ان کا خیال ہے کہ جمہوریت جائے بھاڑ میں ہمیں پاکستان بچانا چاہئے۔ اس بحث کی خاطر فوج کو اقتدار پر قبضہ کرلینا چاہئے۔ جہاں تک پاکستان بچانے کا سوال ہے تو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والا یہی چاہتا ہے کہ پاکستان بچے، آصف علی زرداری کی زبان میں ’’پاکستان کھپے‘‘۔ الطاف حسین نے ایک اچھا سوال سامنے رکھ کر جو مطالبہ کیا ہے یقیناً چند لوگوں کو برا لگا ہوگا مگر پاکستانیوں کی اکثریت کی آواز وہی ہے جو الطاف حسین نے مطالبہ کیا ہے۔ 1985ء کے بعد سے آنے والی نام نہاد جمہوریتوں نے لوگوں کی زندگیوں کو آسان کرنے کے بجائے مشکل سے مشکل تر بنایا ہے۔ 1985ء سے پہلے ایک فرد کماتا تھا اور گھر کے تمام افراد کھاتے تھے اب تمام افراد کمانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک فرد کو کھلانا مشکل ہوتا ہے۔ ان جمہوریتوں نے لوگوں کو بے سکونی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ لوگوں کو بدامنی دی ہے، شہروں میں موت تقسیم ہوئی ہے، ان جمہوریتوں کے باعث بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی ادارے اس دوران کھوکھلے ہوگئے ہیں، اس جمہوریت کے باعث تاریکیوں کا سفر ہوا ہے، روشنی کہیں دور کھو گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں آمریتیں ہیں۔ ایک ایک فرد پارٹی پر مرضی مسلط کرتا ہے، پارٹیاں خاندانی جاگیریں بنی ہوئی ہیں، اس جمہوریت میں کوئی عام آدمی کسی ایوان کا رکن نہیں بن سکا۔
الطاف حسین کے مطالبے کو چند سیاستدانوں نے غیرجمہوری قرار دیا ہے اور آمریت کو دعوت دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مطالبے کو غیرآئینی کہا ہے۔ اگر یہ مطالبہ غلط ہے تو پھر جی ڈی اے کے اجلاسوں کی کارروائی اٹھا کر دیکھ لیں جس میں نوابزادہ نصر اللہ مرحوم بھی تھے، جس میں حامد ناصر چٹھہ بھی تھے،جس میں اسفندیار ولی بھی تھے۔ کچھ نامی گرامی لوگوں کے نام بھی شامل تھے۔ ان اجلاسوں میں مطالبہ کیا جاتا تھا کہ فوج مداخلت کرے، فوج کو دعوت ہمیشہ سیاستدانوں نے دی۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ فوج کبھی دعوت کے بغیر نہیں آئی۔ پوری دنیا دعوت دے تو ٹھیک اگر الطاف حسین دعوت دے تو غلط، سیاستدانوں نے بھی کیا معیار بنارکھے ہیں۔
الطاف حسین نے یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا ہے جب طالبان کے خلاف آپریشن جاری ہے جب قومی سلامتی پالیسی کے مسودے کی وزراء سے صرف آنکھ مچولی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ الطاف حسین نے چند روز پیشتر ہی افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی ریلی نکالی تھی۔ اس روز بھی الطاف حسین سے کچھ اسی طرح کی باتیں کی تھیں۔ یہ واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ الطاف حسین پچھلے کچھ عرصے سے باقاعدہ تیار ہورہے ہیں۔ ہوسکتا ہے جب طاہر القادری دھرنوں اور مارچ کا اعلان کریں تو الطاف حسین پوری طاقت کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کو سپورٹ کریں کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں باتیں کرائی جاتی ہیں لیڈر خود کم باتیں کرتے ہیں شیخ رشید کے بقول سارے فوج کی پیداوار ہیں اور موجودہ لاٹ کی تو پیدائش ہی جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 3 پر ہوئی تھی۔ شیخ صاحب بھی عوامی آدمی ہیں وہ بھی الطاف بھائی جیسی باتیں کررہے ہیں ۔ شیخ صاحب اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف کہاں باتیں کرتے ہیں۔کلاشنکوف کے ایک مقدمے نے شیخ رشید کو بدل کے رکھ دیا ہے اب وہ صراط مستقیم پر ہیں۔ اس راستے پر لانے کے لئے آپریشن ’’راہ راستٔ‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ن لیگ نے آزاد کشمیر کا ضمنی الیکشن جیت لیا ہے، پنچکر لگانے والی سیاست کا کمال ہے کہ وہ نوجوان ہار گیا جس کے باپ کی وفات سے سیٹ خالی ہوئی تھی، اسے ہمدردی کا ووٹ بھی نہ مل سکا۔ آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے مگر وہاں پوری کی پوری حکومت، وزیر امور کشمیر کے انڈر ہے۔ آج کل امور کشمیر کے وزیر برجیس طاہر ہیں۔ چوہدری برجیس طاہر ایسے علاقے سے ہیں جہاں سے شہدا ڈوگر اور چھبہ ڈوگر ہوتے تھے، اس لئے چوہدری صاحب ہر طرح کی کارروائیوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ راجہ فاروق حیدر کو مبارک ہو، چوہدری مجید کو استعفیٰ دے دینا چاہئے کہ وہ خود، ان کے وزراء کی فوج ایک ضمنی الیکشن نہیں جیت سکی یا پھر انہیں پنکچر لگانے کی پریکٹس کرنی چاہئے۔ اب ایک ضمنی الیکشن جھنگ میں ہونام ہے چند روز بعد ہیر کی دھرتی پر ایک صوبائی نشست پر ضمنی انتخاب ہوگا۔ یہ نشست افتخار بلوچ کی نااہلی کے طفیل خالی ہوئی تھی اب وہاں سے ایک اور بلوچ ن لیگ کے ٹکٹ پر ہے۔ سابق وفاقی وزیر فیصل صالح حیات پی ٹی آئی کے امیدوار کو سپورٹ کررہے ہیں، مخدوم فیصل صالح حیات کی عمران خان سے ایچی سن کالج کے زمانے سے دوستی ہے، فیصل صالح حیات فی الحال پی ٹی آئی میں شامل تو نہیں ہوں گے مگر وہ جھنگ کو پنکچر کی سیاست سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں چونکہ پنکچر لگانے والوں کی دور پار سے رشتہ داریاں ہیں۔ فیصل صالح حیات نے پی ٹی آئی کے امیدوار کے لئے جلسے بھی کئے ہیں۔ فیصل صالح حیات کی کھلی حمایت کے سبب ن لیگ تکلیف میں ہے مگر کیا پتہ کیوں کہ یہاں الیکشن کے نام پر ایسی انہونیاں ہوتی ہیں کہ فرشتے بھی حیران ہوجاتے ہیں، حکومت پاکستان کو تھوڑا سا تعاون کرنا چاہئے اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ دنیا الیکشن ’’جیتنے‘‘ کے گر پاکستانیوں سے سیکھ سکتی ہے کیونکہ یہاں پنکچر لگانے کے ماہر موجود ہیں اور دنیا کو مشکل بھی پیش نہیں آئے گی کیونکہ پنکچر لگانے والے انگریزی بولتے ہیں اور انگریزی انٹرنیشنل زبان ہے۔اب آتے ہیں منور حسن کے بیانات کی طرف۔ برادر عزیز حذیفہ رحمان نے قدرے تاخیر سے پوچھا کہ منور حسن کو کیا ہوگیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ منور حسن اور میرا میں کوئی فرق نہیں، دونوں سستی شہرت کیلئے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، کرسکتے ہیں۔ ویسے جماعت اسلامی کو چاہئے کہ وہ منور حسن کے بیانات کا نوٹس لے۔وہ غصہ میں لگتے ہیں لوگ کہتے ہیں انہیں ڈاکٹر کے پاس بھیجنا چاہئے تاکہ ان کا غصہ کچھ کم ہو۔پہلے انہوں نے شہداء کے بارے میں متنازع بات کی اب نواسۂ رسول کے بارے میں متنازع بیان دے دیا،انہیں سوچ سمجھ کر ایسے بیان دینے چاہئیں۔ بقول حرا رانا
میں نے اک عمر گنوا دی تری آنکھوں میں
بھولنے والے تجھے یاد دلائوں کیسے
تازہ ترین