• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے امریکی ریاست اوہائیو میں تقریر کرتے ہوئے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ فرماتے ہیں کہ امریکا آنے والے بہت سے تارکینِ وطن ’’انسان‘‘ نہیں ہوتے، پھر اپنے قولِ زریں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے تارکین وطن کو ’’جانور‘‘ قرار دے دیا، انہوں نے بنا ثبوت یہ بھی کہا کہ ایک گہری سازش کے تحت کچھ ممالک اپنی جیلوں سے نوجوان قیدیوں کو رہا کر کے امریکا بھیج رہے ہیں جو ہمارے شہریوں کیلئے سنگین خطرے کا باعث ہیں۔ٹرمپ کا یہ ایک بیان نفرت کی سیاست کی کامل تفہیم کیلئے کافی ہے۔

نفرت کی سیاست کا مسلمہ اصول ہے کہ سب سے پہلے اپنے مخالف کو انسانیت کے منصب سے معزول کر دیا جائے، یعنی ایک مذہبی یا غیر مذہبی گروہ، قبیلے یا قوم کو Dehumanize کر کے یہ ثابت کیا جائے کہ یہ ہماری طرح انسان نہیں ہیں ، انسانوں جیسے جذبات و احساسات و خیالات بھی نہیں رکھتے، یہ کوئی اور مخلوق ہے، جس کے DNA میں شر گندھا ہوا ہے، اوریہ وحشی ہمارے بدترین دشمن ہیں جو ہمیں قِرطاسِ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں لہٰذا اس سے پہلے کہ اس شیطانی گروہ کی سازش کام یاب ہو ہمیں ان کو بے رحمی سے پامال کر دینا چاہیے۔ یہ فلسفہ اپنے پیروکاروں کو اس اخلاقی زنجیر سے آزاد کر دیتا ہے جو انسانوں کو انسانوں سے نفرت اور ظلم کرنے سے روکتی ہے۔یوں ضمیرکی چبھن سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ظلم ظلم نہیں رہتا، انصاف کا تقاضا بن جاتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کسی بھی گروہ کے خلاف اجتماعی انسانی جرائم کرنے والے اسی ابلیسی پروپیگنڈے کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ جو یورپ میں لاکھوں عورتیں ’’جادوگرنیاں‘‘ کہہ کر جلا دی جاتی تھیں یا لاکھوں حبشی غلام بنا کر باڑوں میں باندھ دیے جاتے تھے، یہ سب ایسے ہی نہیں ہو جاتا تھا۔ پہلے ان گروہوں سے ردائے انسانیت چھینی جاتی تھی، انہیں Demonize کیا جاتا تھا، پھر ضمیر کے بوجھ سے آزاد ہو کر ان گروہوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں 1883 اور1941 کے درمیان 4467 افراد کو عوامی مقامات پر پھانسی دی گئی، پھانسی پانے والوں میں شاید ہی کوئی سفید فام تھا،کچھ پھانسیوں کی پروفیشنل فوٹوگرافی بھی کی جاتی، اور پھر ان تصویروں سے پوسٹ کارڈ بنائے جاتے جو اس زمانے میں سفید فام آبادی میں بہت مقبول ہوا کرتے تھا۔پھانسی والے دن مقامی تعطیل ہوتی، اسکول کے بچوں کو بالخصوص دعوتِ نظارہ دی جاتی، اور پھانسی کا تماشا بھی گھنٹوں پر محیط ہوتا، سیاہ فام مجرموں پر پہلے تشدد کیا جاتا اور طرح طرح کی ایذائیں دی جاتیں، کبھی انہیں ایک آدھ گولی مار دی جاتی، آگ لگا دی جاتی، یا گاڑی کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا جاتا۔ اگلے دن اخبارات پھانسی پانے والے کو ’’Monster‘‘ قراردیتے۔ یعنی معاشرے کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں تھا کیوں کہ کالے ’’انسان‘‘ تھوڑی تھے۔ ہٹلر نے ہالوکاسٹ میں لاکھوں یہودیوں کو ہلاک کرنے سے پہلے انہیں انسانیت کے سنگھاسن سے بے دخل کیا تھا، ہٹلر یہودیوں کو چوہا، جونک، کاکروچ، گدھ اور لومڑی جیسے القابات سے نوازتا ہی رہا کرتا تھا۔ ماضی سے کیا مثالیں دیں کہ یہ شیطانی عمل مسلمانوں کے خلاف آج بھی جاری ہے، فلسطین سے برما تک اور ہندوستان سے ہنگری تک۔

یہ جو ہم پاپولزم سے گھبراتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ پاپولسٹ راہ نما اپنی سیاست کی بنیاد نفرت کے اصول پر رکھتےہیں، دوسری سیاسی جماعتوںکے قائدین اورانکے پیروکاروں کو منصبِ انسانیت سے معزول کرتے ہیں، خود کو رحمانی اور مخالف کو شیطانی ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ پاپولسٹ راہ نما کے پیروکار اگر اپنے کسی سیاسی مخالف کے لیے انسانی ہمدردی کے جذبات محسوس کریں تو پاپولسٹ لیڈر اسے اپنی ناکامی سمجھتا ہے۔ پاکستانی سیاست سے صرف ایک مثال دیکھیے۔ جب کلثوم نواز صاحبہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر ہسپتال داخل ہوئیں تو نواز شریف کے سیاسی مخالفین کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ پاکستانی قوم کہیں اپنی تہذیبی روایات کے تحت ان سے ہمدردی کے جذبات نہ محسوس کرنے لگے، سو کلثوم نواز کوکینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی کامیاب اداکاری کرنے پر آسکر ایوارڈ دینے کے مشورے دیے جانے لگے، کہا گیا کہ وہ جس ہسپتال میں داخل ہیں وہ تو کینسر ہاسپٹل ہی نہیں ہے، ان کے ڈیتھ بیڈ پر ان کی تصویریں اتارنے کے لیے جنونی ہسپتال میں گھس گئے، اور جب وہ وفات پا گئیں تب بھی انہیں معاف نہیں کیا گیا، ہم نے بانی کے حامی ٹوئٹر اکائونٹس پر اس طرح کے ’تعزیتی‘ جملے پڑھے کہ ’’ اس قوم کے اربوں روپے کرپشن سے لوٹ کر اس بڑھیا کے علاج پر ضائع کر دیے گئے۔‘‘ اسے کہتے ہیں نفرت کا بیوپار، اور اس کاروبار کی پہلی شرط اپنے مخالف کو انسانوں کی فہرست سے نکال کر موذی جانوروں کے باب میں داخل کرنا ہے جو کسی بھی حال میں آپ کی ہم دردی کا مستحق نہیں ہو سکتا۔کسی سانپ کے دھیانت پر تو ہماری آنکھیں اشک بار نہیں ہوتیں، کوئی چھپکلی سورگ باشی ہو جائے تو ہم المیہ گیت تو نہیں سنتے، کوئی چوہا کڑکی میں پھنس کر جان کی بازی ہار جائے تو ہم کتنے ملول ہو سکتے ہیں؟

پچھلے ہفتے پی ٹی آئی کی ایک سابق ایم این اے ملیکہ بخاری نے ٹوئٹ کیا کہ ان کی بہن آسٹریلیا میں شدید بیمار ہیں، وینٹی لیٹر پر ہیں، جب کہ ان کا نام نو فلائی لسٹ پر ہے، انہوں نے درخواست کی کہ انہیں خصوصی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی جاں بہ لب بہن سے ملنے جا سکیں۔ مریم نواز نے ملیکہ کی ٹوئٹ کے نیچے ان کی بہن کی صحت یابی کیلئے دعا کی اور مدد کا وعدہ کیا، اگلے دن ملیکہ کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت مل گئی۔یہی ہونا چاہیے تھا، یہی بنیادی انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا۔

اندھیرا اندھیرے سے ختم نہیں ہوتا، روشنی سے ہوتا ہے۔ ٹرمپ اور ان جیسے نفرت کے سوداگروں سے....مشتری ہوشیار باش!

تازہ ترین