• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبائلی علاقوں کے ساتھ خیبر پختونخوا کے 9اضلاع کی سرحدیں ملتی ہیں جہاں امن عامہ کے سلسلے میں سیکورٹی اداروں پر اپنی اپنی ذمہ داریوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ بات حساس اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو اپنے کیمپوں اور علاقے تک محدود رکھنے اور سرحدی علاقہ ہونے کے تناظر میں متعلقہ محکموں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں جبکہ اداروں کے اہل کاروں کا آپس میں ٹکرائو کسی بھی صورت میں ملکی مفاد میں نہیں اور نہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔اس کے باوجود ایسا ہونا انتظامی شعبے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی کامیاب تکمیل کے بعد گزشتہ چند ماہ سے وزیرستان دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا پھر سے مرکز بنا ہوا ہے اور زمینی لحاظ سے اس پیچیدہ علاقے میں سیکورٹی فورسز ان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں جبکہ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں اسمگلنگ کا احتمال رہتا ہے۔حالیہ مہینوں میں معدنیاتی عمل فروغ پذیر ہونے سے صنعتی و کاروباری سرگرمیاں بھی بحال ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں جنوبی وزیرستان میں پولیس اور فرنٹیئر کور کے اہل کاروں کا آمنے سامنے آجانا باعث تشویش ہے۔آمدہ رپورٹ کے مطابق علاقے میں پولیس نے ایف سی اہلکاروں کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے تھانے اور چوکیاں بند کردی ہیں۔اس نے الزام لگایا ہے کہ ایف سی اہلکار اس کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو روز قبل ایف سی نے مقامی پولیس کے زیر استعمال نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑی تھیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ متذکرہ گاڑیاں حکام کی اجازت کے بعد استعمال میں لائی گئیں۔یہ معاملہ صرف انتظامی ذمہ داریوں کا نہیں، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا قانون کے مطابق ہونا ضروری ہے جس کیلئے صوبائی انتظامیہ کو متحرک ہونا چاہئے۔

تازہ ترین