آج ہم جو سیاسی منظرنامہ دیکھ رہے ہیں، اُس میں مختلف جماعتیں اور اِدارے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان صرف اُن کا وطن ہے، اِس پر حکومت کرنے اور اِس کے وسائل سے مستفید ہونے کے وہی حق دار ہیں۔ بدقسمتی سے اُن کے دعووں اور بیانیوں میں اِس قدر شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے کہ معاشرہ بری طرح تقسیم ہو گیا ہے اور گھر گھر ایک جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ کس قدر تباہ کن ہے، اِس کے آثار زِندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ہیں اور اَربابِ فکرودَانش کے لیے گہری تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔ ایک جماعت کے شہ نشین کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے سوا باقی تمام لوگ چور اَور ڈاکو ہیں جو بیش بہا ملکی وسائل ہڑپ کر چکے ہیں، اِس لیے اُن کے وجود کا خاتمہ وطن کے مفاد میں ہے۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ ایک شخص اپنی ذات میں انتقام کا ایک سرچشمہ ہے اور جب تک اُس کا سیاسی وجود ختم نہیں ہوتا، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ محاذآرائی اور پست ترین دھینگا مشتی ایک ایسی خوفناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ دکھوں کا مارا اَور سیاست سے لاتعلق شہری الامان الحفیظ پکار اُٹھا ہے اور ہر طرف سے یہ صدا سنائی دے رہی ہے کہ اللہ کے لیے سر جوڑ کر بیٹھو، اپنے دل صاف کرو اَور اُن ہولناک مسائل کا حل تلاش کرو جن سے پاکستان کے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان پر اپنی چودھراہٹ جمانے کا جنوں اپنی جگہ، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کی اصل غرض و غایت برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد اَور باوقار زِندگی کا تحفظ فراہم کرنا تھا۔ برطانیہ کی عمل داری میں آ جانے کے بعد وہ اَنگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت کی چکّی میں پس رہے تھے اور اُن کے ملّی وجود کے تحلیل ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو چلا تھا۔ اُن پر ملازمتوں کے دروازے بند تھے اور اُن کی تہذیبی اور ثقافتی میراث کی مکمل تباہی کے منصوبے ہر سطح پر عملی جامہ پہنتے جا رہے تھے۔ برطانوی استعمار نے نظم و نسق چلانے کے لیے مقامی ادارے قائم کیے جن میں مسلمانوں کی نمائندگی خال خال تھی۔ اِس پر سرسیّد احمد خاں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر جداگانہ انتخاب کا مطالبہ پوری قوت کے ساتھ اٹھایا اور مضبوط دلائل کے ذریعے انگریز حکمرانوں کو قائل کیا کہ ہندوستان میں امن و امان قائم رکھنے اور قانونی ارتقا کے لیے مسلمانوں کا قومی وجود اَزبس ضروری ہے جس کی حفاظت جداگانہ انتخاب کے ذریعے ممکن ہے، چنانچہ 1909ء کی آئینی اصلاحات میں اسلامیانِ ہند کا جائز مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور یوں انتخابی عمل میں پاکستان کا سفر شروع ہوا جو مسلم برادری کی سیاسی قوت میں اضافے کا باعث بنا۔ یہی قوت آگے چل کر آزادی کی جدوجہد میں ڈھلتی گئی۔
علامہ محمد اقبال نے خطبۂ الہ آباد میں ایک ایسی تجویز پیش کی جس نے مسلمانوں میں ایک زبردست نظریاتی انقلاب برپا کر دیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ مَیں شمال مغربی ہندوستان میں واضح طور پر اِسلام اور مسلمانوں کا یہ مقدر دَیکھ رہا ہوں کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان پر مبنی ایک اسلامی ریاست قائم ہو کر رہے گی جو ہر بیرونی حملے کا دفاع کرنے کی طاقت سے بہرہ ور ہو گی، خواہ یہ حملہ سنگینوں سے کیا جائے یا نظریات کی قوت سے۔ خطبۂ الہ آباد نے مسلمانوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا کہ وہ اَقلیت نہیں، بلکہ ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم ہیں۔ علامہ اقبال نے تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بھی ثابت کیا کہ پورے ہندوستان میں قوم کہلانے کے صحیح حق دار صرف مسلمان ہیں جو اُخوت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کے مقابلے میں اسلام نےاِس خطے میں حیرت انگیز تخلیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُن کی تجویز کے مطابق 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور منظور ہوئی جس میں اسلامی ریاست کو وسعت دیتے ہوئے ہندوستان کا شمال مشرقی خِطہ بھی شامل کر لیا گیا جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی۔
قراردادِ لاہور جسے ایک سال بعد قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا، اِس کی غرض و غایت کے بارے میں قائدِاعظم نے 1943ء میں نہایت واضح اعلان فرمایا کہ ہم پاکستان کی جدوجہد جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لیے نہیں، بلکہ مسلم عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے کر رہے ہیں۔ چار سال بعد ہی برطانیہ کو تقسیمِ ہند کا منصوبہ منظور کرنا پڑا اَور قانونِ آزادیٔ ہند 1947ء کی رو سے طے پایا کہ 15؍اگست 1947ء سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آ جائیں گی جن کی اپنی اپنی خودمختار دَستورساز اسمبلیاں ہوں گی۔ پاکستان کی دستورساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10؍اگست کو کراچی میں منعقد ہوا اَور 11؍اگست کی صبح قائدِاعظم بلامقابلہ صدر جبکہ مشرقی بنگال سے مولوی تمیزالدین خاں نائب صدر منتخب ہوئے۔ قائدِاعظم نے دستورساز اسمبلی سے خطاب کیا اور اُن کی 11؍اگست کی تقریر بڑی مشہور ہوئی جس میں اُنہوں نے ریاستِ پاکستان کی امتیازی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اِس کلیدی نکتے پر بہت زور دِیا کہ اِس مملکت کے مالک عوام ہیں، اِس میں اُن کی مرضی کی حکومت قائم ہو گی اور اُن کی فلاح کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان میں ملاؤں کی حکومت نہیں ہو گی، کیونکہ اسلام کے اندر مذہبی پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں۔
قائدِاعظم کے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خاں کی قراردادِ مقاصد دَستورساز اسمبلی میں 12 مارچ 1949ء کو منظور ہوئی جس میں بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت کے علاوہ یہ بھی اعلان ہوا کہ اقتدار و اِختیار استعمال کرنے کے حق دار صرف عوام کے منتخب نمائندے ہوں گے۔ اِس اعلان میں فوجی اقتدار کی مکمل نفی کر دی گئی تھی اور اَقلیتوں کے لیے اِس امر کی خوشخبری موجود تھی کہ اُنہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی اور اُن کی تہذیبی اور معاشی ترقی کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔ اِن حقائق کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کسی ایک طبقے یا گروہ کے لیے نہیں بلکہ عامۃ المسلمین کی فلاح و بہبود اَور ملّی تشخص کی حفاظت کے لیے وجود میں آیا تھا۔ یہ ملک پچیس کروڑ شہریوں کا وطن ہے اور یوں ہم سب اِس کے وفادار شہری ہیں اور اِس کے تحفظ، ترقی اور خوشحالی کے ذمےدار ہیں۔