• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اپنے بارے میں کبھی کبھی گمان گزرتا تھا کہ میں بہت خوبصورت ہوں ،دراصل اس گمان کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بچپن میں اسکول جانے سے قبل والدہ میرا منہ دھوتیں، آنکھوں میں سرمہ لگاتیں اور پھر گلے لگا کر کہتیں میرا بیٹا دنیا کے سب بیٹوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔ میرے حسن و جمال کے بارے میں میری بہنوں کی بھی یہی رائے تھی، انہیں یقین تھا کہ پوری دنیا میں ان کے بھائی سے زیادہ حسین کوئی نہیں ہے۔ جب میں جوان ہوا تو مجھے اپنی ماں اور بہنوں کی باتوں میں خاصی صداقت محسوس ہوئی کیونکہ جوانی میں تو کوئی بدصورت ہو ہی نہیں سکتا۔ جوانی اپنے طور پر ایک خوبصورتی ہے جس کے سامنے خوبصورت سے خوبصورت بڑھاپا بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ اوپر سے ایک بے وقوف سی لڑکی نے میرے حسن پر ایک ایسی مہر تصدیق ثبت کی کہ میں خود اپنے حسن پر ایمان لے آیا۔ اس یقین کی نوبت یوں آئی کہ میرے تمام گھریلو ملازمین میری تعریفیں کیا کرتے تھے میں سمجھتا تھا وہ مجھے محض خوش کرنےکیلئے ایسی باتیں کرتے ہیں، اندر سے ان کی رائے کچھ اور ہوگی چنانچہ میں نے آزمانے کیلئے ان سب کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور کہا اس دنیا میں جوشخص سب سے زیادہ خوبصورت ہے اس کا نام لکھ کر اس ڈبے میں ڈال دو۔ جب ڈبہ کھولا گیا تو سب نے میرا نام لکھا تھا۔ ریفرنڈم میں اس سو فیصد کامیابی کے بعد بھی اگر میں یا کوئی اور اس ضمن میں کسی شک و شبے کا اظہار کرتا ہے تو اسے دماغی امراض کے کسی ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔میرے ایک پسروری ثمہ لاہور دوست مرزا عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ ان کے بچپن میں پسرور میں ایک شخص خدائی کا دعویدار تھا اسے سو فیصد یقین تھا کہ وہ خدا ہے اور اسے اس بات سے سخت الجھن ہوتی تھی کہ آخر لوگ اسے خدا کیوں نہیں مانتے۔ وہ کئی دفعہ غصے میں بھی آ جاتا تھا وہ ایک بالکل نارمل شخص تھا لیکن جب مسئلہ اس کے دعوے کا درپیش ہوتا اور لوگ اسے خدا ماننے سے انکار کرتے تو وہ اسے لوگوں کی بدنیتی پر محمول کرتا۔ قیوم صاحب کے والد حاجی اسماعیل مرحوم کے ساتھ خدائی کے اس دعویدار کی بہت دیرینہ دوستی تھی ایک دن اس نے حاجی صاحب کو مخاطب کیا اوربے حد دکھ بھرے لہجے میں کہا ’’اسماعیل تم تو میرے بچپن کے دوست ہو کیا واقعی تم بھی یہی سمجھتے ہو کہ میں خدا نہیں ہوں؟‘‘میرا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے جب مجھے پتہ چلتا ہے کہ میرے حسن و جمال کے بارے میں میری والدہ، میری بہنوں اور میرے گھریلو ملازمین کی بے لاگ رائے کے بعد بھی کوئی میری شکل و صورت میں کیڑے نکالتا ہے تو مجھے سخت صدمہ ہوتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کا متعصبانہ رویہ ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہے میں کسی ذاتی مفاد کیلئے خود کو منوانا نہیں چاہتا بلکہ اسلئے کہ مجھ سے محبت دراصل پاکستان سے محبت ہے،مسئلہ یہ ہے ہم لوگ حاسد بہت ہیں کئی برس قبل ایک صاحب کو نشان امتیاز کا ایوارڈ ملا تو اس کے خلاف طوفان آگیا اس میں بھی کئی طرح کے کیڑے نکالے گئے۔ پروفیسر طاہر القادری کو مغرب سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں اس صدی کے سو بڑے انسانوں میں اس صدی کے ایک بڑے انسان کے طور پر شامل کیا گیا تو میرے ایک دل جلے دوست نے جس کا چمڑے کا کاروبار ہے مجھے وہ خط دکھائے جو اس کتاب کے پبلشر نے انہیں بھی ارسال کئے اور جن میں پانچ ہزار ڈالر کے عوض اس دوست کا نام بھی کتاب کے اگلے ایڈیشن میں شائع کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ منفی رویہ ہمیں لے ڈوبے گا ہمیں ایسےمعاملات میں مثبت رویہ اپنانا چاہئے کوئی پتہ نہیں کس گدڑی میں سے لعل نکل آئے۔

یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک سردار جی کے خدائی کے دعوے کو بھی کوئی نہیں مانتا تھا لوگوں نے اس کے دعوے کی صداقت کیلئے صرف ایک گواہ کا مطالبہ کیا تو سردار جی نے انہیں ساتھ لیا اور ایک مکان کے قریب پہنچ کر اس کی کنڈی کھڑکائی اندر سے ایک عورت نکلی اس نے سردار جی کو دیکھاتو ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی ہائے اوئے میریا ربا توں فیر آگیا ایں (اوہ!میرے خدا تم پھر آ گئے ہو ) تو اس عورت نے اگر سردار جی کو خدا مان لیا، طاہر القادری صاحب کا نام اس صدی کے سو بڑے انسانوں میں آگیا اور ریفرنڈم کے نتیجے میں اگر میں دنیا کا خوبصورت ترین انسان ثابت ہو گیا ہوں تو اس سے کسی کو کیا تکلیف ہے خدا سے ڈریں اپنی ذات سے بالا ہو کر صرف پاکستان کے حوالے سے سوچیں (قندمکرر)

آخر میں میرے دو اشعار

خواہش کی وحشتوں کا یہ جنگل ہے پُرخطر

مجھ سے بھی احتیاط کہ جنگل تو میں بھی ہوں

..............

اے زمانے میں تجھے سمجھا بہت تاخیر سے

اب اگر تجھ کو برتنے کا ہنر آیا تو کیا؟

تازہ ترین