• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روٹی کپڑا مکان والے پچھلے کالم میں اسٹیٹ بنک کے اس حوالے سے کہ شہروں میں رہنے والے (متوسط) افراد کی زندگی دیہات میں رہنے والے (متوسط) افراد کے مقابلے میں سکڑتی جا رہی ہے کہ موضوع پر اظہار خیال کا وعدہ کیا تھا، سو اس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔ دراصل یہ فرق معیار زندگی اور صرف Consumption کے لحاظ سے ہے اور بالکل درست ہے۔ 1998ء کی مردم شماری میں ملک میں 48,363 سکونتی مقامات تھے ان میں 515 کو شہری اور 47,848 کو دیہات میں شمار کیا گیا ہے۔ شہری مقامات میں سب سے بڑا علاقہ کراچی تھا، جس کی آبادی اس وقت 92 لاکھ اور اس وقت ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے اور سب سے چھوٹا بلوچستان کی ایک چھائونی تھی، جس کی آبادی 500 کے قریب تھی مگر شہری مقام کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ آبادی کے لحاظ سے دیہات کی تقسیم یوں کی جا سکتی ہے۔ ایک ہزار سے کم آبادی والے دیہات بشمول غیر آباد جن کو بے چراغ کہا جاتا ہے۔ 1001 اور 5 ہزار کے درمیان، 5001 سے اوپر۔ ان تینوں کی معیشت مختلف ہے اور اسی کے لحاظ سے وہاں کے رہنے والوں کی زندگی۔
نچلی سطح کے دیہات میں کوئی دکان، اسٹور یا کاروباری مرکز نہیں ملے گا۔ یہاں کے باشندوں کی ضروریات ہفتہ واری بازاروں سے پوری ہوتی ہیں۔ جہاں ایک طرف چند دیہات کے لوگ اپنی پیداواریں جیسے دالیں، پیاز، لہسن، سبزیاں اور پھل، مویشی، مرغیاں، انڈے برائے فروخت لاتے ہیں۔ یہاں چند چھوٹے دکاندار مستقل دکانیں لگا لیتے ہیں اور باہر سے گشتی دکاندار اور ٹھیلے والے آ جاتے ہیں اور یہاں بناسپتی گھی، خوردنی تیل، نمک، مٹی کا تیل، بچوں کے سلے کپڑے، مردوں کے درآمد شدہ پرانے کپڑے، سرما میں گرم کپڑے مقامی صنعتوں کی پیداواریں جیسے سندھ میں سندھی ٹوپی، اجرک، رلی، خیبر پختونخوا اونی سوئٹر، روئی لبادے، کمبل وغیرہ، عورتوں کے سنگھار کا معمولی سامان، جعلی کریم، پائوڈر اصلی بوتلوں اور ڈبوں میں اگر یہ گائوں کسی شاہراہ کے قریب ہو تو وہاں بسیں، ویگنیں ان ہوٹلوں کے قریب ٹھہرتی ہیں جہاں چائے بسکٹ اور اسی طرح کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ تیسری سطح کے دیہات میں عموماً سرکاری مڈل اسکول، ڈسپنسری، اتائی ڈاکٹر، سلوتری جو اپنے آپ کو مویشی کا ڈاکٹر کہتا ہے، چھوٹا سا بازار جہاں ترکھان، حجام، بزاز، درزی، معمولی مٹھائی کی دکان، چائے خانے ہوتے ہیں۔ دیہات میں گھر سے باہر نکلنے پر کوئی خاص لباس نہ تو پہننا پڑتا ہے اور نہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال پرائمری اور مڈل اسکولوں کے بچوں کا ہوتا ہے۔ بعض تو ننگے پیر اسکول میں آ جاتے ہیں۔ ان اسکولوں کے پاس مونگ پھلی، بھنے چنوں اور مٹھائیوں کے ٹھیلے والے آ جاتے ہیں۔ اب ریز گاری تو ختم ہو گئی، زر کی سب سے چھوٹی اکائی روپیہ ہے جو بچوں کو ہر روز نہیں ملتا۔ ان کو گھر سے گڑ، میٹھی ٹکیاں وغیرہ مل جاتی ہیں۔ آپ نے دیکھا دیہات میں خرچ کرنے کے وسائل بہت محدود ہیں۔ ادھر سرکار گندم، چاول، مکئی، گنا، تمباکو کی قیمتیں مقرر کر دیتی ہے اور متوسط کاشتکار کو معقول رقم ہاتھ لگ جاتی ہے۔ ترکھان، حجام، کمہار، امام، موذن، میراثی وغیرہ کو فصل پر غلہ، پھل، سبزیاں ادا کی جاتی ہیں۔ اس طرح متوسط کاشت کار کو خاصی بچت ہو جاتی ہے تاوقتیکہ وہ شہر جا کر خریداری نہ کر لے۔ شہروں میں صَرف کے وسائل بے شمار ہیں۔ مشہور سڑکوں پر بازار اور گلیوں میں دکانیں ہیں۔ ترغیب کے لئے ٹی وی، اخباروں اور ریڈیو پر اشتہارات ہیں۔ خود دکانوں اور اسٹوروں کے باہر سیلز کے اشتہارات لگے ہیں۔ ایک چیز خریدو اور دوسری چیز مفت حاصل کرو۔ اتنی رقم کی خریداری کرو اور لاٹری میں عمرے کا ٹکٹ، موٹر کار، موٹر سائیکل وغیرہ حاصل کرو۔ چند سال پہلے بنکوں نے تنخواہ دار طبقے کو اقساط پر موٹریں، موٹر سائیکلیں، ٹی وی، فریزر، سلائی کی مشین دینا شروع کی تھیں۔ شاید لوگوں نے اقساط دینا بند کر دیں تو غالباً یہ اسکیم ختم ہو گئی۔ اب یہ رئیل اسٹیٹ میں نظر آتی ہے۔ نئی نئی اشیاء بازاروں میں آتی ہیں مثلاً مختلف قسم کے برگر طرح طرح کے پیزا۔ دوسری طرف خریداروں کی آسانی کے لئے چیزوں کی شکل بدلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف مرچیں، دھنیا، ہلدی، گرم مسالا پسا ہوا ملتا تھا۔ اب دو منٹ کے رائس، ایک منٹ کی سویاں خریدو ابلے ہوئے پانی میں ڈالو ڈش تیار۔ پہلے مرغی خریدو تو دکان دار اس کو ذبح کر کے پر صاف کر کے اور قتلے بنا کر دے دیتا تھا۔ اب صاف شدہ چکن سیکنڈوں میں مل جاتا ہے۔ صاف شدہ بوٹیاں، قیمہ، تیار شدہ کباب، ڈبوں میں بند بریانی، قورمہ، حلیم، زردہ وغیرہ مل جاتا ہے۔ مشینوں کی اتنی کثرت ہے کہ آلو کے چپس بنانے، پھلوں کا رس نکالنے، ٹھنڈی ڈشوں کو گرم کرنے کی مشینیں ہیں۔ کراچی میں منرل واٹر کی بڑی بڑی بوتلیں 40 فی صد گھرانوں میں استعمال ہو رہی ہیں اور ایک لیٹر کی بوتل موبائل کی طرح ہر مرد کے ہاتھ میں اور خاتون کے بیگ میں نظر آتی ہے۔ شہروں میں سپر اسٹوروں کا رواج بڑھ رہا ہے جہاں ہر قسم کی شے کپڑے، جوتے ایک چھت کے نیچے نظر آتی ہے۔ آپ لسٹ بنا کر خریداری کے لئے جاتے ہیں۔ بیگم اور بچے تفریحاً ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہاں بیگم صاحبہ اور بابا لوگوں کو کچھ نئی چیزیں نظر آتی ہیں جو آپ خریدنے پر مجبور ہیں۔ یوں آپ کا مقررہ بجٹ بڑھ جاتا ہے۔ دوسری چیز بڑے شہروں میں باہر کھانے کے دستور میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں روزانہ تقریباً لاکھ سوا لاکھ افراد چھوٹے سے بڑے ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ تعطیل کے دن یہ تعداد دو لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ بیشتر بڑے ہوٹلوں میں نشست کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک ریسٹورنٹ کا اشتہار اخبار میں شائع ہوتا ہے، بالغ +949 ٹیکس، بچہ +599 ٹیکس، 5 سال سے کم عمر بچہ فری۔ ایک دوسرے ریسٹورنٹ میں جہاں ایک خاص ڈش ہوتی ہے جو عموماً دوسری جگہ نہیں ملتی۔ 1290 فی فرد اس میں سیلز ٹیکس شامل ہے، اگر کسی ہفتے آپ خاندان کے ساتھ ایسے ہوٹلوں میں چلے گئے تو نصف ماہ کی تنخواہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں غائب۔
میں نے بچوں کی فیس کا تو ذکر ہی نہیں کیا جو بعض اسکولوں میں پانچ ہزار ماہانہ ہے۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی فیس 800 یا ہزار روپے ہے۔ شہروں میں ہر طرف لوٹ مار ہے۔ 22/20 ہزار روپے والا اگر کراچی، اسلام آباد، لاہور یا کسی دوسرے بڑے شہر میں کرائے کے مکان میں رہتا ہے تو اس کی نصف تنخواہ تو چٹکی بجاتے ہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، اس لئے اسٹیٹ بنک کا استدلال درست ہے۔ خصوصاً اس لئے کہ دیہات میں کرائے کے مکان موجود نہیں یا بہت کم کرایہ ہے۔ شہروں میں آپ کہاں تک ترغیبات سے منہ چھپائیں گے۔
تازہ ترین