• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے ضمیر ذرا تاخیر سے ہی جاگتے ہیں۔ اس بات کو خصوصی طور پر نوٹ کیا گیا ہے کہ جب بھی کسی بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے یا وہ قابل گرفت الزامات کی زد میں آجاتا ہے تو اس کا ضمیر جاگنے لگتا ہے لیکن ایسا شخص پورے ملک کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ضمیر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کا بھی جاگ چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کھیل میں ہم نے یہ آسان طریقہ تلاش کرلیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کونشانہ بناؤ، الزام تراشی کرو، ہر برائی میں اس کا نام شامل کرکے جمہوریت کے پاٹے خان بن جاؤ۔ ہم ایک لمحے کو بھی یہ نہیں سوچتے کہ آخر اس کے نام پرہم کس کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اب تو صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ معمولی چور اُچکے بھی پکڑے جانے پراسٹیبلشمنٹ کا نام ہی لیتے ہیں کہ اس کا واحد مقصد خود کو مظلوم دکھا کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں ہم کن حالات سے گزر رہے ہیں، چاروں طرف فتنوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا ماحول بڑھتا جارہا ہے۔ معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف تھوڑی سی امید دلاتا ہے تو ایران گیس پائپ لائن معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی پر ہمارے سر پر اربوں ڈالر جرمانے کی تلوار لٹکنے لگتی ہے۔ ہمارے وزیر موصوف ایران کو جھانسہ دینے کی خاطر کہتے ہیں کہ ہم کوئی درمیانی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو اگلے ہی دن واشنگٹن سے پابندیاں لگانے کی دھمکی آجاتی ہے۔تھوڑاآگے بڑھتے ہیں توخیبرپختونخوا، بلوچستان کے بیشتر علاقے( سی پیک کے پس منظر میں) دہشت گردی کے شکار نظر آتے ہیں۔خوف کی ایسی فضا میں جب بلوچستان دہشت گردی کا شکار ہو۔ افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد خیبرپختونخوا میں حملہ آور ہو کر حساس منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئرز ، سول و ملٹری فورسز کے افسروں اور جوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہوں۔ہمارے فوجی افسراور جوان جانوں کی قربانیاں پیش کرکے دفاع وطن کی ذمہ داریاں نبھاتے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑتے ہوئے جب ان کو گریبانوںسے پکڑتے ہیں تو انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار لاپتہ افراد کے حق میں میدان میں آجاتے ہیں۔ مان لیا کچھ بے گناہ افراد بھی پکڑے گئے ہوں گے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ لاپتہ افراد کی اکثریت کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی آلہ کار بن چکی ہے۔ ایسے میں غور کیجئے کہ جب گرفتار دہشت گردوں کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے تو انصاف کی ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگتی ہیں۔ انصاف سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو سولی پر لٹکائے یا خود سولی چڑھ جائے۔ عمرانی دور میں خوف کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جن مسلح دہشت گردوں کو ملٹری کورٹس سے سخت سزائیں ہوئیں انہیں سول کورٹس نے بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ریاست انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوئی یا انہیں جیلوں میں نظر بند رکھنا پڑ گیا۔ ایسے فیصلوں سے انصاف اور ریاستی اداروں میں دراڑ پیدا ہوئی۔ من مرضی کے انصاف کیلئے کبھی پشاوری دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو کبھی لاہوری گیٹ پر دستک دی جاتی ہے۔ جس کسی کو کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی پناہ گاہ میںچلا جاتا ہے۔ تقسیم در تقسیم انصاف ، صرف من پسند ٹولوں، گروہوں، جتھوں کو جہاں سے بھی ہے جیسے بھی ہے فراہم کیا جارہا ہے۔ جہاں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے وہاں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانئے کے نام پر پورے سسٹم کو ٹھوکر مار کر راتوں رات ہیرو بننے کی روایت پڑ چکی ہے۔ یہ جو آج کل ایک خط کی صورت سسٹم کو فٹ بال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، خط لکھنے والوں سےکوئی پوچھے کہ جناب کیا آپ نے کبھی اپنی منجی تھلے بھی ڈانگ پھیری ہے کہ نہیں؟ کون نہیں جانتا کہ آج سسٹم کو ٹھوکر مار کر اپنی دکاند اری چمکانے والوں کی اکثریت ساجھے دار ہے۔ ان کی نانی، دادی ایک ہے۔ جب ان کی جان پر بن آتی ہے تو یہ ایک دوسرے کے معاون و سہولت کار بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ سے ماتحت عدلیہ تک یہی کہانی ہے۔مقبول ترین لاءچیمبروں سے جڑے یہ لوگ باہمی مفادات ، تقرر و تبادلوں تک میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اب تو عام آدمی بھی فیصلے سے پہلے فیصلہ سنا دیتا ہے کہ کس کو کون سی عدالت یا جج سے کیا انصاف و سزا ملے گی۔پاکستان کی تاریخ میںایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسلام آباد کے چھ جج صاحبان کا ضمیر ایک ساتھ جاگا ہے۔ اب انہیں یہ احساس ستانے لگا ہے کہ کوئی انہیں نگرانی و ہراساں کرکے فیصلوںپر مجبور کررہا ہے۔ معزز جج صاحبان اب بھی پورا سچ نہیں بول رہے یہ بھی تو ممکن ہے کہ جن اداروں پر الزام لگایا جارہا ہے ان کے پاس سیاسی ملاقاتوں کے ٹھوس شواہد موجود ہوں اور ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘کے مصداق اب وہ یہ خط لکھ کر اپنے ”سوئے ضمیر“ جگانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ الزامات کچھ بھی ہوں معزز چھ جج صاحبان کوٹھوس شواہد پیش کرنا ہوں گے جنہوں نے یہ پنڈورا بکس کھولا ہے وہی اسے بند کرنے کا سبب بھی بنیں گے۔ اگر خط کے پبلک ہونے سے قبل اڈیالہ جیل میں بشریٰ بی بی کی اخبار نویسوں سے گفتگو پر غور کریں کہ عمران خان بشریٰ بی بی کا بازو پکڑ کر انہیں روکتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان نہ دو لیکن بشریٰ بی بی کہتی رہیں’’میرے شہد میں کسی نے کچھ ملایا تھا جس سے میری طبیعت خراب ہوئی۔ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو اسٹیبلشمنٹ ذمہ دار ہوگی‘‘۔ یعنی ڈیل کی کوششیں ناکام، خط کی صورت نیا بحران۔ اب دیکھتے ہیں انکوائری کمیشن کی پٹاری سے کیا نکلتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین