• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ معمولی نہیں بلکہ نہایت غیرمعمولی واقعہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا کہ ان پر دبائو ڈالا جارہا ہے اور مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جارہا ہے ۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ سابق چیف جسٹس کے نوٹس میں بھی معاملے کو لائے تھے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ یہ خط چونکہ میڈیا کے ذریعے بھی عام ہوا تو بجا طور پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معاملے پر غور کیلئے فوری فل کورٹ اجلاس بلایا۔ اس کے فیصلوں سے آگاہ کرنے کیلئے چیف جسٹس، وزیراعظم سے بھی ملے اور انہیں اپنی تشویش، تجاویز اور ممکنہ راستوں سے آگاہ کیا۔ چونکہ انکوائری کمیشن صرف حکومت بناسکتی ہے اس لئے اگلے روز حکومت نے جسٹس تصدق حسین کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا ۔جسٹس تصدق حسین اچھی شہرت کے حامل ہیں اور ماضی میں عمران خان بھی انکی تعریف کرچکے ہیں لیکن پی ٹی آئی نے اس کمیشن کو مسترد کرکے فل کورٹ کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف کئی وکلا نے بھی کمیشن کو مسترد کیا لیکن بڑی بات یہ ہوئی کہ خود جسٹس تصدق حسین گیلانی نے بھی معذرت کی ۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر چھ رکنی بنچ تشکیل دے کرکیس کو سماعت کیلئے مقرر کیا اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ بنچ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔

سوال یہ ہے کہ ہماری عدلیہ اس المیہ سے کیوں دوچار ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ سال کے دوران پاکستان میں ہائبرڈ نظام رائج کرنے کیلئے پی ٹی آئی کی شکل میں جو تجربہ کیا گیا اس کی وجہ سے میڈیا اور پارلیمنٹ کی طرح عدلیہ کا بھی یہ حشر ہوا۔ یہ تو ان چھ ججز نے صدا بلند کردی ورنہ گزشتہ آٹھ سال سے عدلیہ دبائو میں ہے اور اس پر ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ ججز کو لکھے ہوئے فیصلے تھمائے جاتے تھے اور ان سے صرف سنوانے کا کام لیا جاتا تھا۔ حنیف عباسی کیس کی مثال لے لیجئے ۔ تاریخ سماعت انتخابات سے قبل مقرر تھی لیکن اسے الیکشن سے تین روز آگے کر دیا گیا تاکہ وہ الیکشن نہ لڑسکے۔ صبح فیصلہ سنایا جانا تھا اور بات رات گیارہ بجے تک چلی گئی کیونکہ درون خانہ کچھ ہورہا تھا۔ اب تو پھر بھی جج مینیج کئے جارہے ہیں لیکن اس دور میں تو چیف جسٹس تک مینجڈ تھے ۔ اب تو اتنی تبدیلی آئی ہے کہ جب ججز نے شکایت کی تو ان کے ساتھ ساتھی ججز بھی کھڑے ہوگئے اور وکلا بھی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جب یہی فریاد کی تو ساتھی ججز نے ان کا سوشل بائیکاٹ کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کو انصاف ملتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن کم ازکم ان کو سزا تو نہیں دی جارہی جبکہ شوکت عزیز صدیقی کو الٹا سزا دے کر نوکری سے فارغ کر دیا گیا اور وہ بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور چیف جسٹس پر مشتمل سپریم جو ڈیشل کونسل کے ذریعے ۔ اسی طرح خود جب جسٹس فائز عیسیٰ نے ایجنسیوں کی مرضی کے خلاف ایک فیصلہ دیا تو ان کا جینا حرام کردیا گیا اور وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے انجام سے بال بال بچے ۔صرف یہ نہیں ٹی وی چینلز پر ایجنسی کے اہلکار ججز کے چیمبرز سے باہر جاتے ہوئے دکھائے گئے لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔جسٹس ثاقب نثار سے لیکر جسٹس عمر عطابندیال تک بڑے افلاطون ججز آئے اور گئے لیکن صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اب المیہ یہ ہے کہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو برسوں کی عادت پڑ گئی ہے جبکہ دوسری طرف جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کی صورت میں قانون پسند ججز کو اپنا ایک سرپرست نظر آگیا ہے اس لئے جہاں کئی ججز آج تابعداری کررہے ہیں وہاں ایک بڑی تعداد نے ضمیر کے مطابق کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ یوں ایجنسیوں کو بھی ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے اور ان ججز پر جب دبائو ڈالا جاتا ہے تو وہ بھی دبائو میںنہیں آتے، تاہم اب جب پنڈورا باکس کھل گیا ہے تو سپریم کورٹ کو یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے ۔ کوئی ایسا فیصلہ ہونا چاہئے کہ آئندہ کوئی سرکاری اہلکار کسی جج پر دبائو نہ ڈال سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ججز کو بھی ایسا سبق ملنا چاہئے کہ آئندہ کوئی جج کسی دبائو یا لالچ میں فیصلہ نہ کرسکے ۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ سال سے اس سلسلے کو کھول کر دیکھا جائے کہ ججوں پر دبائو کیوں ڈالا جاتا رہا اور جج دبائو کیوں قبول کرتے رہے ۔ میں معاملے کو لمبا کرکے موجودہ ججز کی شکایت کے معاملے کی اہمیت کو کم کرنا نہیں چاہتا ۔ بلاشبہ پہلی فرصت میں ان کا معاملہ نمٹایا جائے لیکن گزشتہ آٹھ سال کی جانکاری بھی ضروری ہے ۔ خود ان چھ جج صاحبان نے بھی اپنے خط میں لکھا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انصاف نہیں ملا اور ذمہ داروں کو سزا نہیں ملی۔ اس لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ کم از کم جسٹس شوکت صدیقی اور خود جسٹس فائز عیسیٰ کے کیسز میں ایجنسیوں کے اشارے پر استعمال ہونے والے ججز اور سرکاری اہلکاروں کو سزائیں دی جائیں ۔ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھٹو کو ناجائز پھانسی دی گئی تھی لیکن کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ اسی طرح یہ ثابت ہوگیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ حق اور سچ بولنے پر زیادتی ہوئی لیکن ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے ججز کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سرخرو ہوئے لیکن ان کے ساتھ کسی اور کے ایما پر زیادتی کرنے والوں سے کوئی باز پرس نہیں ہوئی۔ چھ ججز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اگر سرکاری اہلکاروں کو سزا ملتی ہے تو اسے قوم تب خوش دلی سے قبول کرے گی جب ان کیساتھ ساتھ ان ججز کو بھی سزا دی جائے جو کسی بھی دور میں خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار بنے یا تعصبات کا شکار ہوئے۔اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ بینچ بلکہ اب تو ہائی کورٹ کو دیکھ کر لوگ پہلے سے اندازہ لگاتے ہیں کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ اسلئے جب تک عدلیہ اپنے گھر کی اصلاح نہیں کرے گی تو دوسرے بھی ان کے کام میں مداخلت کرتے رہیں گے ۔

تازہ ترین