• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل کے روز پارلیمان کے ایوان بالا (سینٹ) کے انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا جبکہ خیبرپختونخوا کی گیارہ نشستوں پر انتخابات مخصوص نشستوں پر آنے والے ارکان اسمبلی سے حلف نہ لینے کے تنازع میں اپوزیشن کی درخواست پر ملتوی کردیئے گئے۔ یوں یہ الیکشن دو مرحلوں میں منقسم ہوگیا۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات کا مرحلہ مذکورہ تنازع کے بارے میں حتمی فیصلہ آنے پر ہی ممکن ہوگا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ حکومتی اتحاد قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ سینٹ وہ ادارہ ہے جسے وفاقی پارلیمانی نظام میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایوان بالا میں ہر وفاقی یونٹ کو مساوی نمائندگی حاصل ہوتی ہے اسلئے کم آبادی والے صوبے یا یونٹ کی آواز بھی اتنی ہی موثر ہوتی ہے جتنی کسی دوسرے یونٹ کی ہوسکتی ہے۔ ایوان بالا ایسا مستقل ادارہ ہے جس کے نصف ارکان کی رکنیت کی مدت ختم ہونے پر پرانے نصف ارکان برقرار رہتے ہیں جبکہ نئے الیکشن کے ذریعے آنے والے ارکان خالی جگہ پُر کرتے ہیں۔ اس طرح اس ادارہ کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ سینٹ انتخابات کی ایک خاص اہمیت یہ اہتمام ہے کہ اس ایوان میں پارلیمانی تجربہ ہی نہیں پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افرادبھی پہنچیں۔ بھارت سمیت کئی ملکوں میں کھلاڑیوں، صحافیوں، اداکاروں، سائنسدانوں کو بھی سینٹ میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی دانش اور تجربے سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہمارے ہاں بھی منجھے ہوئے سیاستدانوں کے علاوہ ایسے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیئے جاتے ہیں جو امور خارجہ، مالیات اور دیگر شعبوں میں مہارت کے حامل ہوں۔ سینٹ انتخابات کے اس مرحلے میں سامنے آنے والے نتائج کے بموجب پیپلز پارٹی 14، مسلم لیگ (ن) 13نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ ایوان بالا میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن گئی جبکہ حکومتی اتحاد قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ خیبرپختونخوا میں سینٹ کی 11نشستوں پر الیکشن صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف کے بعد دوسرے مرحلے میں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) 6جنرل، خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی تین تین اور ایک اقلیتی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی 7جنرل نشستیں، خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی تین تین اور ایک اقلیتی نشست جیت گئی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، سنی اتحاد کونسل کے دو دو جبکہ تین آزاد ارکان سینٹر منتخب ہوئے۔ اے این پی، ایم کیو ایم اور نیشنل پارٹی ایک ایک نشست حاصل کرسکیں۔ اسلام آباد کی سینٹ کی دونوں نشستوں پر حکومتی اتحاد نے میدان مار لیا۔ اس وقت، کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایوان بالا کے ارکان کا انتخاب ابھی باقی ہے اس باب میں دو آرا ہیں کہ درپیش صورتحال میں ایوان کی کارروائی جاری رکھی جاسکتی ہے یا جاری نہیں رکھی جاسکتی۔ حتمی صورت حال عدالتی رائے سامنے آنے کے بعد ہی واضح ہوسکے گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ منتخب سینیٹر صاحبان کے حلف اٹھانے کے بعد جلد قائمہ کمیٹیاں کام شروع کردیں گی۔ اس وقت ملک کو خارجی اور داخلی دونوں سطحوں پر چیلنجوں کا سامنا ہے۔ معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔ بیرونی تعلقات کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔ غربت، صحت، تعلیم اور سماجی میدانوں میں کام کرنا ہے۔ منتخب ارکان کو قانون سازی کے کام کے علاوہ ان امور پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ مفید سفارشات کے ذریعے قومی اسمبلی کی رہنمائی کرنا ہوگی اور عملدرآمد میں پیش رفت پر نظر رکھنا ہوگی۔ پاکستان کے حالات کئی شعبوں میں اصلاحات کے متقاضی ہیں۔ اس باب میں معمول سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ عوام ان سب ضرورتوں کے حوالے سے اپنے منتخب ارکان ایوان سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین