• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خلافت اچھی یا مُلوکیت بہتر...؟ شرمناک جمہوریت پسندیدہ یا المناک بادشاہت قابلِ برداشت...؟ غریب لوگوں کے نام پر شخصی آمریت یا معززین کے ذریعے مذہبی پاپائیت...؟ سرمایہ داری یا اشتراکیت...؟ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے لیکن اس موضوع کو چھیڑے بغیر سماج کی تاریخ کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
میں آج اپنے وطن کے9کروڑ غریب محنت کش لوگوں کی طرف سے آئی ایم ایف کی پسندیدہ ، ہماری ڈالرانہ عادت اور امیرانہ ادائوں والی وزارتِ خزانہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ جس نے آخر کار یہ خوشخبری سُنا ہی دی کہ ہمارے صرف اور صرف 9 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندہ ہیں۔ جنہیں ایک وقت کی روٹی بھی مل جاتی ہے...! غریبو... تمہیں مبارک ہو 18 کروڑ روٹیاں ملنے پر۔ لگتا ہے وزارتِ خزانہ کچھ باتیں چھپا گئی یا پھر کچھ مزید راز کھولتے کھولتے شرما گئی۔ مثال کے طور پر یہ کہ 9 کروڑ خالی پیٹ بھوکے انسان جو روٹی کھاتے ہیں اُس کے ساتھ وہ گندے پانی کا گلاس پیتے ہیں...؟ بھارت سے درآمد شدہ مہنگی پیاز کے گنڈے کا مزہ لیتے ہیں...؟اینٹوں کی ملاوٹ والی سُرخ مرچ پائوڈر کی چٹنی چاٹتے ہیں...؟ یا ہماری فلاحی ریاست کی انتہائی فلاحی بیوروکریسی اور اُس سے بھی زیادہ مزید فلاحی حکمران اشرافیہ کی طرف سے عطیہ کی ہوئی امریکی بھُجیا اور ورلڈ بینک کا قورمہ نوشِ جان کرتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا شاہی خزانہ صرف شاہی دربار سجانے اور درباری کاروبار چلانے پر خرچ ہوتاہے۔ اسی لئے باقی جو کچھ بھی بچتا ہے اُس میں 9 کروڑ بھوکے اور ننگے لوگوں کے حصے میں ایک ٹیڈی پیسہ یا ایک عدد جھوٹی تسلی کا لفظ بھی موجود نہیں۔ہم ایک ایسی عجیب و غریب یا پھر امیر و غریب قسم کی معیشت ہیں جس کے پاس ہاتھوں ہاتھ بانٹنے کے لئے صرف 100 ارب کیش موجود ہے۔ ہم جسے چاہیں 100ارب سے من پسند سائز کی تھیلی پکڑا دیں۔ نہ کوئی قانون، نہ تو کوئی ضابطہ، نہ ہی کوئی پابندی ہمارا ہاتھ روک سکتی ہے۔ ہمارے پاس ہر شہر میں نئی نویلی سڑکوں کے مزاروں پر دوڑانے کے لئے اربوں روپے کی میٹرو بس لائن کے لئے کھربوں روپے کے ڈھیر ہیں۔ پی آئی اے سمیت ہر جگہ لاکھوں ڈالر تنخواہ والے کنسلٹنٹ حسبِ منشا بھرتی کرنے کے لئے ڈالروں کی بوریاں ہیں۔ ان امیرانہ نوکریوں پر بھرتی کی نہ عمر کی کوئی آخری حد ہے نہ ہی دہری شہریت جیسی پابندی۔ مگر جب غریب کے بچوں کی باری آئے تو ہماری معیشت فوری طور پر دیوالیہ اور قلاش بن کر’’میگا برانڈ‘‘ کشکول گلے میں ڈال لیتی ہے۔ ہمارے پاس کچی آبادیوں میں جینے والے کروڑوں انسانوں کے لئے پکّے مکان بنانے کا وقت ہے نہ بجٹ۔ مسکین آباد کے غریب لوگوں کے لئے اسپتال تو دور کی بات ڈسپنسری بنانے کا بھی منصوبہ نہیں ہے۔ ان حالات میں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے۔ کیا پاکستان کی تقدیر کی ملکیت خلقِ خدا کے بجائے مافیاز کے نام پر پٹواری کے انتقال کی طرح ٹرانسفر ہو چکی ہے...؟ آج قومی وسائل پر مافیا کے قبضے کے خلاف آواز بلند کرنا پاگل پن سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے کامران اور شادمان لوگ ایسی دلرُبا تحریریں لکھتے ہیں جن کے ذریعے بڑوں بڑوں تک رسائی ہو سکے۔ کہیں سے شکریئے کا ٹیلی فون آ جائے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم کسی وقت تشریف لا کر ڈنر نوش فرمانے کی دعوت ہی مل جائے۔ ویسے بھی غربت کا نوحہ نہ ڈرامائی ہوتا ہے نہ ہی رنگین اور نہ ہی اس کے ذریعے پروموٹر ملتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے آج کل پروموٹر کی ضرورت کسے نہیں ہوتی۔ ابھی دو دن پہلے 15لاکھ روپے ماہانہ پنشن لے کر تازہ تازہ ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازم نے 16عدد سرکاری محافظوں کے لشکر کے درمیان سرکاری بُلٹ پروف مرسڈیز جیپ پر بیٹھ کر فتویٰ دیا کہ دو سال بعد وہ غریبوں کے انسانی حقوق کی بحالی کی مہم چلائے گا۔ جو شخص65 سالہ نوکری میں اپنی معاشی بحالی کی جدوجہد کرتا ہے اُسے جونہی ریٹائرمنٹ ملے وہ قوم کی تقدیر بدلنے کے راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ بھی کسی بڑے شہر کی محفوظ شاہراہ پر ریڈ زون میں’’ ہذا من فضلِ ربی‘‘ کے کتبے والے بنگلے کے عین اندر۔ غریبوں کے ایسے دردمندوں کو چاہئے وہ اُن لوگوں کے درمیان بقیہ زندگی گزاریں جن کے جاری کردہ ڈومیسائل کی وجہ سے انہیں نوکری ملتی ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ وہ ہے جو قومی مسائل کی سرکاری فہرست میں سرے سے موجود ہی نہیں یعنی ہمارا ریاستی نظام۔ انسانوں کو ریاست کی ضرورت ہی اس لئے پیش آئی تھی کہ لاچاروں اور ناداروں کو زور زبردستی کرنے والوں کے ظلم سے نجات مل سکے۔ سرکاری خرچ اور عوام کے ٹیکس پر پلنے والے اداروں کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ راج دربار سے باہر نکل کر کوچہ و بازار میں دھاندلی ، مہنگائی، جرائم پر قابو پائیں۔ عام آدمی جو زمین کا سینہ چیر کر گندم اور چاول پیدا کرتا ہے، اپنا جگر چاک کر کے دیو قامت بھاری مشینوں اور معیشت کا پہیہ چلاتا ہے۔ محض چند ہزار کے عوض گولیاں اور بمباری سہنے کے لئے اپنا سینہ پیش کرتا ہے۔ جس کی تنخواہ ملنے سے پہلے اُس کی تنخواہ سے سرکار کو ٹیکس ملتا ہے۔ جو دُور دیس میں پردیس کاٹ کر پاکستان کے زرمبادلہ کا واحد ذریعہ بنتا ہے۔ اُس عام آدمی کو بھی پاکستان کے وسائل کا حصہ دار بنایا جائے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے...!نام یاد کرنے کی کوشش کریں پھر اپنے آپ کو اور قوم کو بتائیں کہ ان طبقات میں سے کون ہے جس کا کوئی حصہ یا نمائندگی پاکستان کے سیاسی ایوانوں، معیشت گھروں یا فیصلہ ساز اداروں میں موجود ہے...؟65 سال سے وہی گھسے پٹے نعرے۔ وہی گرد آلود چہرے، وہی زنگ آلود پالیسیاں، وہی سرمائے سے سرمایہ بنانے والے مافیاز کا نظام۔ ویسے ہی الیکشن ویسے ہی نتیجے...نتیجے ایسے کہ جن کا کوئی نتیجہ بھی پہلے سے مختلف نہیں نکلا۔ڈبل روٹی بنانے والی فیکٹری میں آٹے کے بجائے بارود ڈالنے سے ایٹم بم نہیں بنایا جا سکتا۔ جو نظام برطانوی امپریئل ازم سے متاثر ہو کر نافذ کیا گیا تھا اُس میں سے ایسا خلیفہ کون ڈھونڈ سکتا ہے جس کے دور میں اگر دریائے فرات کے کنارے بھوک سے کُتا بھی مر جائے تو اُس کی ذمہ داری خلیفہ وقت اپنے سر لے لے۔ یہ نظام تو انسانوں کی موت پر اُتنا افسوس بھی نہیں کرتا جتنا اپنے ’’بڈی‘‘ یعنی پالتو کُتے کی طبیعت ناساز ہونے پر کرتا ہے۔ جسے اس بات سے اتفاق نہ ہو کیا وہ کسی ایسے سیاسی لیڈر، سماجی رہنما، مذہبی شخصیت، حکمران یا ہرکارے کا بیان بتا سکتا ہے جس نے غربت کی لکیر سے بھی نیچے گِر جانے والوں، مشکل سے ایک وقت کی روٹی کھانے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہو یا اُن کے لئے کچھ کر گزرنے کا جھوٹا نعرہ تک لگایا ہو...؟ اس کا جواب اگر کوئی نہیں ہے تو پھر خلیفہٗ ثانی سیدنا عمرؓ کے دور کا مُردہ کُتا آج کے نو کروڑ زندہ انسانوں سے زیادہ بخت والا تھا، مگر کیوں...؟خلافت اچھی یا مُلوکیت بہتر...؟ شرمناک جمہوریت پسندیدہ یا المناک بادشاہت قابلِ برداشت...؟ غریب لوگوں کے نام پر شخصی آمریت یا معززین کے ذریعے مذہبی پاپائیت...؟ سرمایہ داری یا اشتراکیت...؟ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے لیکن اس موضوع کو چھیڑے بغیر سماج کی تاریخ کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
تازہ ترین