• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

کچھ لوگ ذاتی نوعیت کے واقعات شائع کروانے سے گریز کرتے ہیں، لیکن میری سوچ یہ ہے کہ اگر کسی واقعے میں کسی مثبت اور اصلاحی پہلو کے ساتھ عبرت کا عنصر بھی موجود ہو، تولوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لیے بغیر ہچکچاہٹ، اسے عوام النّاس تک ضرور پہنچانا چاہیے۔ زیرِنظر واقعہ میرے ایک قریبی عزیز کے ساتھ پیش آیا، جوپوری سچائی اور ایمان داری کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرے ہم زلف، نجم الکبیر تقریباً چالیس سال پہلے اپنی فیملی کے ساتھ امریکا منتقل ہوگئے۔ امریکا منتقل ہونے سے قبل وہ کراچی میں 400گز کے ایک پرانے طرز کے بنگلے میں مقیم تھے۔ ان کے برابر والے بنگلے میں ایک کرائے دار رہتے تھے، اُن سے اتنا زیادہ میل جول بڑھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا بھائی بنالیا۔ بڑے خوش گوار ماحول میں دونوں فیملیز بڑے اچھے دن گزار رہی تھیں، کچھ عرصے بعد میرے ہم زلف امریکا چلے گئے، تو بعد میں اپنی فیملی کو بھی وہیں بلالیا۔ 

اب مسئلہ یہ تھا کہ مکان کا کیا کیا جائے، فی الحال اُسے فروخت کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہ تھا کہ نجم صاحب کے تین بھائیوں میں سے کوئی نہ کوئی تین چار سال بعد پاکستان کا چکر لگاتا، تواسی بنگلے میں رہائش اختیار کرتا۔ پورا گھرتمام تر ضروریاتِ زندگی سے آراستہ تھا، پڑوسی کو چوں کہ وہ پہلے ہی بھائی بنا چکے تھے اور ان پر اندھا اعتماد بھی کرتے تھے، لہٰذا مکان کی دیکھ بھال کے لیے ایک چابی اپنے سسرال کے علاوہ، ایک اپنے بھائی نما پڑوسی کو بھی دے کر بالکل بے فکر ہوگئے۔ 

میرے ہم زلف کے سسرال والے انتہائی شریف اور ڈرپوک قسم کے لوگ تھے، بنگلے کی دیکھ بھال تو دُور کی بات، اُس طرف جاتے تک نہیں تھے۔ حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہینے دو مہینے میں کسی بہانے وہاں چکر لگاکر بنگلے کی صورتِ حال سے واقف رہتے، حالاں کہ اُن کا گھر بھی تقریباً دو فرلانگ پر تھا۔ اور بس، اسی غفلت کے سبب پڑوسی کی نیّت خراب ہوگئی۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ اُن کا نہ تو کوئی رشتے دار آتا ہے، نہ کوئی رکھوالی کے لیے آتا جاتا ہے، بلکہ ہم زلف کے امریکا جانے کے بعد اُن کے بھائیوں میں سے بھی جب کوئی تین چار سال بعد آتا، تو عموماً اپنے سسرال ہی میں قیام کرکے، وہیں سے واپس چلا جاتا۔

نیز، میرے ہم زلف بھی جب اپنی اہلیہ (میری سالی) کے ساتھ آتے، تو میرے گھر ہی میں قیام کرتے اور تقریباً ایک یا دو ماہ گزار کے واپس چلے جاتے، اس دوران شاذو نادر ہی اپنے گھر جاتے۔ تو بس، اسی بات سے فائدہ اُٹھا کر اس منہ بولے بھائی نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔

اُس نے گیلری کی درمیان والی دیوار میں ایک عارضی دروازہ بنالیا۔ پھرکچھ عرصے بعد وہاں کشادہ گیلری اور ایک کمرے کو خالی کرکے ڈبو اور ویڈیو گیم کا سیٹ اپ لگالیا، جب کہ آس پاس کے لوگوں کو تاثر دیا کہ اُس نے یہ گھر خرید لیا ہے۔ اس دوران میرے ہم زلف کراچی آئے، تو حسبِ معمول میرے یہاں قیام کیا، لیکن اسی دوران ایک روز اپنے بنگلے پر چلے گئے اور بنگلے کے احاطے میں ویڈیو گیم کی دکان اور دیگر تبدیلیاں دیکھ کر حیران پریشان ہوگئے۔ 

منہ بولے بھائی کو بلاکر پوچھا، تو اس نے تاویل پیش کی کہ ’’مَیں سارا دن تو آپ کے گھر کی رکھوالی نہیں کرسکتا، لہٰذا گھر کی سیکیوریٹی کے لیے ایسا کیا ہے، اب یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ آج کل کراچی کے حالات بھی بہت خراب ہیں، آئے روز لُوٹ مار، ڈکیتیوں کے واقعات معمول بن گئے ہیں، اسی لیے میں نے یہ حل نکالا۔‘‘ میرے ہم زلف، وجہ سُن کر کچھ فکرمند تو ہوئے، لیکن اس کے اس جواز سے متاثر بھی بہت ہوئے اور گھر آکر اُس کے اس ’’کارنامے‘‘ کا ذکر کرنے لگے۔ 

میرے عِلم میں یہ بات آئی، تو مَیں نے کہا کہ ’’اب سمجھ لیں خطرے کا سگنل آپ کو ملنا شروع ہوگیا ہے، کسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے مزید وقت ضائع کیے بغیر فوراً اُن سے چابی لے لیں، ورنہ آپ کے گھر پر قبضہ ہوجائے گا، آپ سمجھ لیں کہ آپ کے منہ بولے بھائی نے کارروائی ڈال دی ہے۔‘‘ میری بات سُن کر کہنے لگے، ’’شمیم بھائی! اب میں کیا کروں، میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔‘‘ مَیں نے مشورہ دیا کہ ’’آپ انھیں یہ بتائیں کہ مَیں امریکا سے مستقل طور پر پاکستان شفٹ ہورہا ہوں، لہٰذا اس سے قبل گھر میں ضروری مرمّت اور رنگ و روغن وغیرہ کروانا چاہتا ہوں، اس لیے جلد از جلد میرا مکان خالی کردیں۔ 

مزدور ہروقت آتے جاتے رہیں گے، تو آپ کو باربار دروازہ کھولنے کی پریشانی ہوگی۔‘‘ بہرحال، میرے کہنے پر کچھ دن بعد وہ اکیلے اُس کے پاس چلے گئے۔ میرے مشورے کے مطابق تمام باتیں پڑوسی کے گوش گزار کیں، تو کہنے لگا، ’’نجم بھائی! یہ آپ کیا کررہے ہیں، میرے تین چار لاکھ روپے اس کام پر لگ چُکے ہیں اورآپ کے گھر کی دیکھ بھال کی صورتِ حال بھی پہلے سے زیادہ بہتر ہوگئی ہے، اب آپ میرا نقصان کروانا چاہتے ہیں، آپ میری ہم دردی اور اتنے سال کی چوکیداری کا یہ صلہ مجھے دے رہے ہیں۔‘‘ ہم زلف اُن کی بات سُن کر منہ لٹکائے واپس آگئے اور بڑی کش مکش میں پڑگئے۔ 

اب اُن کے واپس جانے میں چند دن ہی رہ گئے تھے، اور پھر کچھ ضروری کاموں کی مصروفیت کی بِنا پروہ دوبارہ اس کے پاس جاہی نہیں سکے۔ اُن کے امریکا جانے سے قبل مَیں نے اُن سے کہہ دیا کہ مجھے خطرے کی گھنٹی پہلے سے زیادہ زور سے بجتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ آپ دوبارہ جلد صرف اسی مقصد کے لیے آئیں اور مناسب یہ ہوگا کہ تنہا آئیں، کیوں کہ میں محسوس کررہا تھا کہ اُن کی اہلیہ ڈری سہمی ہوئی تھیں۔ خیر،اسی الجھن اور پریشانی میں دونوں واپس امریکا چلے گئے۔

پھرتقریباً دو سال بعد کراچی آئے اور حسبِ معمول میرے یہاں ہی قیام کیا، کچھ دن کے بعد مَیں نے پھر اس موضوع پر بات کی، تو کہنے لگے ’’ہاں، دوچار روز میں اپنے بنگلے کا معاملہ حل کروالوں گا۔‘‘ لیکن اس تمام عرصے میں وہ بہت کش مکش کا شکار رہے، پھر چند روز بعد اہلیہ کے ساتھ اپنے بنگلے پہنچ گئے۔ بنگلے کا دروازہ اندر سے مقفل تھا۔ دستک دی، تو تھوڑی دیر بعد ان کے وہی منہ بولے بائی باہر تشریف لائے اور دونوں کو اندر لے گئے۔ اندر تو عجب ہی سماں تھا، پوری فیملی باقاعدہ اُن کے گھر میں رہائش پذیر ہوچکی تھی۔

گیلری کا دروازہ غائب تھا، دیوار کو چُنائی کرواکے پہلے کی طرح کردیا گیا تھا۔ میرے ہم زلف کی حیرت و تشویش پر ان کے پڑوسی کا جواب بہت ہی حیرت انگیز تھا، کہنے لگا، ’’آپ تو اس کے بعد آئے ہی نہیں، ورنہ مَیں آپ کو بتاتا کہ میرے ساتھ کیسا ظلم ہوا۔ میرے مالکِ مکان نے بہت ہی مختصر نوٹس پر مجھ سے گھر خالی کروالیا، اب آپ ہی بتائیں، مَیں کدھر جاتا، آخر یہی فیصلہ کیا کہ اپنی ویڈیو گیم کی دکان ختم کرکے کچھ عرصے کے لیے آپ کے گھر ہی رہائش اختیار کرلوں۔ 

میرا ایک پلاٹ ہے، اُسے آہستہ آہستہ کرکے بنالوں گا، آپ تو ویسے بھی یہاں نہیں رہتے، آپ کے لیے تو یہ فی الحال بے مصرف ہی ہے۔‘‘ یہ سن کر میرے ہم زلف اور سالی ہکّا بکّا رہ گئے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دیں۔ میری سالی کو تو جیسے چُپ ہی لگ گئی۔ پھر میرے ہم زلف نے اُن سے کہا، ’’دیکھیں، آپ کچھ دن کے اندر اندر یہ مکان خالی کرکے دوسرا کوئی مکان کرائے پر لے لیں، ہمیں خود بہت جلد یہاں شفٹ ہونا ہے۔‘‘ تو کہنے لگا، ’’یہ ہے تو بہت مشکل کام، لیکن کوشش کروں گا۔ 

بہرحال، آپ اپنے مکان کی طرف سے بے فکر رہیں۔‘‘ اس نے یہ چال اس لیے چلی تھی کہ کچھ وقت اسی طرح گزارلیا جائے، پھر اُن کے امریکا واپس چلے جانے کے بعد مزید دوتین سال کا وقت مل جائے گا،تو بعد کی، بعد میں دیکھی جائے گی۔ بہرحال، اس نے میرے ہم زلف کو بہلا پُھسلا کر،جھوٹی تسلّیاں دے کر واپس کردیا، خیر، میرے ہم زلف اوراُن کی اہلیہ اسی گومگو، کشمکش کی کیفیت میں امریکا چلے گئے۔ 

ان سے زیادہ مایوسی اور بے چینی مجھے ہورہی تھی، لہٰذا اِس بار میں نے آر یا پار والی پلاننگ کرلی اور ایک بڑے مقامی اخبار سے منسلک اپنے ایک دوست سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ میرے وہ دوست انتہائی اثر و رسوخ والے شخص تھے، مجھے یقین تھا کہ اُن کا حوالہ ہی کافی ہوگا۔ یہی سوچ کر مَیں نے اپنا ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کیا کہ کہ کس طرح اُن سے پولیس کا پریشر ڈلوا کر اس مسئلے کو حل کروانا ہے، لیکن جب تک میرے ہم زلف پاکستان نہ آتے، مَیں کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔

خیر، دو سال بعد میرے ہم زلف دوبارہ کراچی آئے اور اس دفعہ بجائے بنگلے پر جاکر ملنے کے ہم فرنیچر مارکیٹ چلے گئے، جہاں اس شخص کی دکان تھی۔ وہ ہمیں دیکھ کرکچھ فکرمند ہوگیا، لیکن جو لوگ پیشہ وَر شاطر ہوتے ہیں، وہ کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔ میرے ہم زلف نے مکان کے حوالے سے اپنا سوال دُہرایا، تو کہنے لگا ’’آپ شاید میری بات سمجھے نہیں، یا پھر مَیں آپ کو صحیح طور پر سمجھا نہیں پایا۔ مَیں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ جب تک میرا مکان تعمیر نہیں ہوگا، میں آپ کا مکان خالی نہیں کرسکتا، میں خود مالی پریشانی کا شکار ہوں، میرا پہلے ہی تین چار لاکھ روپے کا نقصان (ویڈیو گیم کی دکان وغیرہ کی مَد میں) ہوچکا ہے۔ 

اس کے علاوہ آپ کے گھر کی نئے سرے سے وائرنگ، سینیٹری فٹنگ اور کچن کی مرمّت میں بھی اچھے خاصے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ پھر فرنیچر مارکیٹ میں آگ لگنے سے میرا نقصان الگ ہوا۔‘‘ ہم اس شاطر کی چرب زبانی پر گنگ سے ہوگئے۔ وہ بڑی فن کاری کے ساتھ ڈرامے بازی کررہا تھا۔ مَیں نے کہا، ’’دیکھیں، بہتر یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ساتھ اِن کا مکان خالی کردیں، ورنہ آپ کو پولیس اور عدالتی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 

ہم شریف لوگ ہیں، اس لیے ابھی تک شرافت کا دامن نہیں چھوڑا، لیکن اگر آپ کی یہی رٹ رہی، تو ہم کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔‘‘ میری بات سن کر وہ کچھ پریشان سا ہوگیا، فرنیچر صاف کرنے والے کپڑے سے اپنا پسینہ پونچھتے ہوئے بولا ’’نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہمارے نجم صاحب سے بہت پرانے تعلقات ہیں، انہوں نے مجھے اپنا بھائی بنایا ہوا ہے، جب ہی تو یہ مجھ پر اتنا بھروسا کرتے ہیں، لیکن میرے ساتھ جو مجبوری تھی، میں نے بتادی تھی، آپ مطمئن رہیں، کسی کارروائی وغیرہ کی نوبت نہیں آئے گی، جیسے ہی میرے مالی حالات کچھ بہتر ہوں گے، ان کا مکان خالی کردوں گا۔‘‘ 

مَیں نے کہا، ’’اب دیرینہ تعلقات اور مطمئن کرنے والی بات ختم ہوگئی ہے، اب یہ نہیں، بلکہ مَیں خود براہِ راست اس کیس کو ہینڈل کروں گا، ابھی تک آپ ان کی غیر موجودگی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، مجھے اسی وقت بتائیں، مکان کب خالی کررہے ہیں، ورنہ میں ابھی پولیس کو فون ملاتا ہوں۔‘‘ میری دھمکی کارگرثابت ہوئی، وہ منّت سماجت پراُتر آیا۔ مختصر یہ کہ ہم اسے ایک ماہ کا نوٹس دے کرواپس آگئے۔

راستے میں میرے ہم زلف کہنے لگے، ’’شمیم بھائی! اب کیا ہوگا؟ کہیں وہ کوئی غلط راستہ اختیار نہ کرلے۔‘‘ مَیں نے مُسکراتے ہوئے بڑے اطمینان سے انہیں اپنی پلاننگ بتائی کہ اگر اُس نے سیدھے طریقے سے مکان خالی نہیں کیا تو پولیس کی مدد حاصل کرکے بھی خالی کرویا جاسکتا ہے۔ اپنے اثر و رسوخ والے دوست کا بھی بتایا، جس سے مَیں پہلے ہی بات کرچکا تھا۔ مگر گھرپہنچنے کے بعد انھوں نے میری اہلیہ کے سامنے اپنی اہلیہ کو ساری باتیں اورمیری پلاننگ سے آگاہ کیا، تو دونوں ایک دَم ڈرگئیں، کہنے لگیں کہ ’’جب دوسرے بھائیوں کو پروا نہیں، تو آپ لوگ اپنی جانیں کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ 

معلوم نہیں، اس شخص کے کس قسم کے لوگوں سے تعلقات ہیں، کہیں وہ کوئی خطرناک قدم نہ اٹھالے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس معاملے سے ہاتھ اٹھا کر اللہ کے سپرد کردیں۔‘‘ مَیں اُنہیں بہت سمجھاتا رہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، ڈر تو وہ رہا ہوگا، کیوں کہ میری باتوں سے کافی پریشر میں آگیا تھا، لیکن وہ دونوں اس بات کو نہیں سمجھ سکیں اور ہمیں دوبارہ وہاں جانے سے منع کردیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ اس وقت بڑے آرام سے اُسی بنگلے میں رہ رہا ہے۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ جب تک اس دنیا میں بے وقوف موجود ہیں، عقل مند اِسی طرح فائدہ اُٹھاتے رہیں گے۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)