منفرد جغرافیے اور قدرتی مناظر کی حامل، بلوچستان کی سرزمین کا اندازِ سیاست بھی مُلک کے دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ بلوچستان کے عوام اپنے قبائلی مزاج کے باعث سیاسی جماعتوں کی بہ جائے انتخابات میں نوابین، سرداروں اور خوانین کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے برعکس قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا خاصا اثر و رسوخ اور ووٹ بینک ہے۔
نیز، یہاں ’’ایلیکٹ ایبلز‘‘ کا بھی اہم کردار ہے اور ان کی شمولیت کے بغیر حکومت کی تشکیل نا ممکن ہے۔ یہ ’’ایلیکٹ ایبلز‘‘ عموماً آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے ہیں یا پھر انتخابات قریب آتے ہی کسی ایسی جماعت کا حصّہ بن جاتے ہیں کہ جو وفاق میں حکومت سازی کے لیے’’ فیوریٹ‘‘ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیوں سے ان ایلیکٹ ایبلز کی حکومت میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔ نیز، یہاں ایسے سیاسی خانوادے بھی موجود ہیں کہ جو بہ یک وقت حکومت اور اپوزیشن کا حصّہ ہوتے ہیں اور یوں ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں۔
زیرِ نظر مضمون میں بلوچستان اسمبلی کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کی عمارت کے بارے میں بتاتے چلیں۔ اسمبلی کی عمارت کا سنگِ بنیاد 1973ء میں اُس وقت کے گورنر بلوچستان، نوّاب محمّد اکبر خان بگٹی نے رکھا۔ عمارت کو ’’گدان‘‘ (خیمہ)کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے، جو انوکھا اور دِیدہ زیب ہونے کے علاوہ بلوچستان کی ثقافت کا آئینہ دار بھی ہے۔
یاد رہے کہ خیمہ، پشتون اور بلوچ ثقافت کا ایک اہم جُزو ہے اور آج بھی پاوندے (خانہ بدوش) خیموں ہی میں رہتے ہیں۔ کوئٹہ شہر کی معروف شاہ راہ، زرغون روڈ پر واقع بلوچستان اسمبلی کی عمارت کا باقاعدہ افتتاح 28اپریل 1987ء کو اُس وقت کے وزیرِ اعظم، محمّد خان جونیجو نے کیا۔ یہ عمارت 10ایکڑ رقبے پر محیط ہے اور اس کی تعمیر پر 5کروڑ 20لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
عمارت کا کَورڈ ایریا65400مربّع فِٹ ہے۔ اسمبلی کی عمارت سے قبل شاہی جرگہ ہال میں21ارکانِ اسمبلی کے لیے نشستیں تھیں، جب کہ نئی عمارت میں 72ارکان کے لیے نشستیں رکھی گئی ہیں اور اس وقت بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد65ہے۔ عمارت میں گورنر اور اسپیکر کی جوائنٹ گیلری میں25 مہمانوں اور صوبائی حکومت کے25اعلیٰ افسران کے لیے بھی نشستیں مختص کی گئی ہیں، نیز وزیٹرز گیلری میں 168عام مہمانوں کے علاوہ55 صحافیوں کے بھی بیٹھنے کی گنجایش ہے۔ اسمبلی کی عمارت ہی میں وزراء کے دفاتر قائم ہیں، جب کہ وزیرِ اعلیٰ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور اپوزیشن لیڈر کے چیمبرز بھی عمارت ہی کے اندر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا چیمبر پہلے ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل تھا، جسے اب ایک کُشادہ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں پریس رُوم کے علاوہ ایک کینٹین بھی ہے۔ علاوہ ازیں، عمارت کے احاطے میں ایک بینک کی برانچ بھی موجود ہے۔ پہلے اسٹاف کے دفاتر خیمہ نُما اسمبلی کے احاطے میں قائم تھے، مگر اب اُنہیں نو تعمیر شُدہ سیکریٹریٹ منتقل کردیا گیا ہے، جسے ’’ایڈمنسٹریشن بلاک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس بلاک کا افتتاح اکتوبر 2002ء میں اُس وقت کے گورنر بلوچستان، امیر الملک نے کیا تھا۔ عمارت کے احاطے میں تین لانز ہیں، جن میں لگائے گئے رنگ برنگے پودے اور درخت عمارت کی خُوب صورتی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
ایڈمنسٹریشن بلاک میں 76کمروں کے علاوہ ایک کانفرنس ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں60افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ علاوہ ازیں، ایک بڑا کمیٹی رُوم بھی ہے۔ ایڈمنسٹریشن بلاک میں رپورٹنگ ،ریسرچ سینٹرز،پرنٹنگ، ایڈیٹنگ اور اکاؤنٹس برانچ کے علاوہ ایک لائبریری بھی ہے، جس میں مختلف موضوعات پر تقریباً 10ہزار کُتب موجود ہیں۔ عمارت میں ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے، جس کا افتتاح 28جون 1987ء کو اُس وقت کے صدر، ضیاء الحق نے کیا تھا۔ عمارت کی چھت مختلف بلاکس سے مزیّن ہے اور چھت کے بالائی حصّے کو بھی خیمے سے مشابہ مخصوص رنگ دیا گیا ہے۔
بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو پتا چلتا ہے کہ جام محمّد یوسف کے علاوہ کوئی بھی وزیرِ اعلی اپنی آئینی مدّت پوری نہیں کر سکا۔ وہ10دسمبر 2002ء سے 9نومبر 2007ء تک قائدِ ایوان رہے، جب کہ سب سے کم عرصہ (22دن) میر ظفر اللہ جمالی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ نواب اسلم رئیسانی 4سال، 9ماہ جب کہ جام میر غلام قادر اور میر عبدالقدّوس بزنجو دو دو بار قائدِ ایوان رہے۔
بلوچستان اسمبلی کو یہ اعزا زبھی حاصل ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل اور اُن کے صاحب زادے، سردار اختر جان مینگل، جام میر غلام قادر کے صاحب زادے، جام محمّد یوسف اور پوتے، جام کمال خان عالیانی بھی قائدِ ایوان رہے۔ بلوچستان میں 4مرتبہ گورنر راج نافذ کیا گیا۔
پہلی مرتبہ 13فروری 1973ء سے 27اپریل 1973ء تک، دوسری مرتبہ 31 دسمبر 1975ء سے 6دسمبر 1976ء تک، تیسری مرتبہ 12اکتوبر 1999ء سے یکم دسمبر 2002ء تک ،جب کہ چوتھی مرتبہ 13جنوری 2013ء کو گورنر راج نافذ ہوا۔ دوسری جانب 4مرتبہ ہی بلوچستان اسمبلی کے قائد ینِ ایوان اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد مستعفی ہوئے۔ ان وزرائے اعلیٰ میں میر تاج محمّد جمالی مرحوم، سردار اختر مینگل، نواب ثناء اللہ خان زہری اور جام کمال خان شامل ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے پہلے انتخابات دسمبر 1970ء میں منعقد ہوئے۔ تب ارکانِ اسمبلی کی کُل تعداد 21تھی، جن میں خواتین کے لیے ایک مخصوص نشست بھی شامل تھی۔ چوں کہ اُس زمانے میں اسمبلی کی کوئی باقاعدہ عمارت نہیں تھی، اس لیے اسمبلی کا دفتر ٹاؤن ہال (شاہی جرگہ ہال) میں قائم کیا گیا اور افتتاحی اجلاس اُس وقت کے گورنر، میر غوث بخش بزنجو نے طلب کیا، جس کی صدارت عبدالصّمد خان اچکزئی نے کی۔ اس اجلاس میں محمد خان باروزئی اور مولوی سیّد محمد شمس الدین بالتّرتیب بلامقابلہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔
پہلی اسمبلی کا قائدِ ایوان، سردار عطاء اللہ مینگل اور قائدِ حزبِ اختلاف، نواب غوث بخش باروزئی کو منتخب کیا گیا۔ تاہم، تقریباً 9ماہ بعد پہلی اسمبلی معطّل کر دی گئی اور پھر جام میر غلام قادر کی سربراہی میں یہ دوبارہ فعال ہوئی۔ مولوی شمس الدّین کی شہادت کے بعد 3جون 1974ء کو قادر بخش بلوچ ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے، جب کہ 1974ء کے اختتام پر جام میر غلام قادر خان کے مستعفی ہونے پر محمّد خان باروزئی 4دسمبر 1974ء کو بلامقابلہ قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔
دوسری بلوچستان اسمبلی 10مارچ 1977ء کو وجود میں آئی اور 4 جولائی1977ء تک قائم رہی۔ 8اپریل 1977ء کے اجلاس میں غلام قادر اور محمد رحیم کاکڑ بالتّرتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر جب کہ سردار محمّد خان باروزئی قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ تیسری بلوچستان اسمبلی 12مارچ 1985ء کو وجود میں آئی۔ اس اسمبلی میں ارکان کی تعداد بڑھا کر 45کر دی گئی، جس میں 3اقلیتی ارکان بھی شامل تھے۔ ملک سرور خان کاکڑ اور آغا عبدالظّاہر احمد زئی بالتّرتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر جب کہ میر جام میر غلام قادر قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔
اسی دوران بلوچستان اسمبلی نئی تعمیر شُدہ عمارت میں منتقل ہوئی، جس کا افتتاح اُس وقت کے وزیرِ اعظم، محمّدخان جونیجو نے کیا۔ 26نومبر1988ء تا7اگست 1990تک قائم رہنے والی چوتھی اسمبلی میں سردار محمّد خان باروزئی اور میر عبدالمجید بزنجو بالتّرتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر جب کہ میر ظفر اللہ خان جمالی قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کی قیادت میں قائم ہونے والی یہ اسمبلی اکثریت ثابت نہ کرنے کے باعث تقریباً 20روز بعد ہی ٹوٹ گئی۔ بعدازاں، عدالتی احکامات کے نتیجے میں بحال ہونے والی اسمبلی نے نواب اکبر خان بگٹی کی قیادت میں میر محمّد اکرم بلوچ اور عنایت اللہ خان بازئی کو بالتّرتیب اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا۔
پانچویں بلوچستان اسمبلی 2نومبر 1990ء سے 19جولائی 1994ء تک قائم رہی۔ اس اسمبلی میں ارکان کی تعداد کم کر کے 23کر دی گئی اور خواتین کے لیے کوئی نشست مختص نہیں کی گئی۔ پانچویں اسمبلی میں ملک سکندر خان ایڈووکیٹ اور میر عبدالمجید بزنجو بالتّرتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر، جب کہ میر تاج محمّد جمالی قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ ڈھائی سال قائدِ ایوان رہنے کے بعد میر تاج محمّد جمالی اپنے عُہدے سے مستعفی ہوئے، جس کے بعد نواب ذوالفقار مگسی نے یہ منصب سنبھالا۔
چھٹی اسمبلی اکتوبر 1993ء سے 1996ء تک قائم رہی۔ اس اسمبلی میں عبدالوحید بلوچ اور بشیر مسیح نے بالتّرتیب اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر، جب کہ نواب ذوالفقار مگسی نے قائدِ ایوان اور مولانا عبدالواسع نے قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ساتویں اسمبلی 1997ءتا 1999ء قائم رہی۔ مذکورہ اسمبلی میں میر عبدالجبّار خان اور مولوی نصیب اللہ بالتّرتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر جب کہ سردار اختر جان مینگل قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ تقریباً 18ماہ تک قائد ایوان رہنے والے سردار اختر مینگل اکثریت کا اعتماد کھو دینے کی بنا پر مستعفی ہوئے اور اس کے بعد ایوان نے میر جان محمّد جمالی کو اپنا قائد منتخب کیا۔
اکتوبر 2002ء کو منتخب ہونے والی آٹھویں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد43سے بڑھا کر 65کر دی گئی، جن میں 51عمومی، 11خواتین اور 3 اقلیتوں کی نشستیں شامل تھیں۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس اسمبلی کاحصّہ بننے کے لیے کسی بھی رُکن کی تعلیمی قابلیت کم از کم بی اےہونے کی شرط عاید کی گئی۔ اس ’’گریجویٹ اسمبلی‘‘ نے الحاج جمال شاہ کاکڑ اور محمّد اسلم بھوتانی کو بالتّرتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا، جب کہ قائدِ ایوان میر جام محمّد یوسف اور کچکول علی ایڈووکیٹ قائدِ حزبِ اختلاف منتخب ہوئے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد نویں اسمبلی وجود میں آئی۔
محمّد اسلم بھوتانی اور حافظ مطیع اللہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے جب کہ چیف آف ساراوان، نواب محمّد اسلم خان رئیسانی کو قائدِ ایوان منتخب کیا گیا۔ اس اسمبلی کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے تقریباً تمام ارکان ہی کابینہ میں شامل تھے۔ یہ اسمبلی 14جنوری2013ء کو بر طرف کر دی گئی اور صوبے کی تاریخ میں دوسری مرتبہ گورنر راج نافذ کیا گیا۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں دسویں بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی۔
پاکستان مسلم لیگ نون نے 21نشستوں کے ساتھ اسمبلی میں اکثریت حاصل کی، جب کہ پشتون خوا میپ نے 14اور نیشنل پارٹی نے 11نشستیں حاصل کیں۔ صوبے میں مسلم لیگ نون، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ نے مل کر مخلوط حکومت قائم کی اور مری معاہدے کے تحت پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی اور آخری ڈھائی سال مسلم لیگ نون نے حکومت کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس معاہدے کے نتیجے میں 9جون 2013ء کو نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزارت ِاعلیٰ کا قلم دان سنبھالا، جب کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے میر جان محمد جمالی اسپیکر، عبدالقدّوس بزنجو ڈپٹی سپیکر اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالواسع قائدِ حزبِ اختلاف منتخب ہوئے۔ معاہدے کے تحت ڈھائی سال بعد 24 دسمبر 2015ء کو چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری نے قائدِ ایوان کا منصب سنبھالا جب کہ اختلافات کی وجہ سے میر جان محمّد جمالی کی جگہ راحیلہ حمید خان دُرّانی اسپیکر منتخب ہوئیں۔
تاہم، عبدالقدّوس بزنجو نے بھی اختلافات کے باعث ڈپٹی اسپیکر کا عُہدہ چھوڑ دیا۔ بعد ازاں، اپوزیشن سمیت تمام اراکین نے قائدِ ایوان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی، جس کے پیشِ نظر وزیرِ اعلیٰ، نواب ثناء اللہ زہری نے 9جنوری 2018ء کو استعفیٰ دے دیا اور پھر 13جنوری2018ء کو پاکستان مسلم لیگ (قاف) کے رُکنِ صوبائی اسمبلی، میر عبدالقدّوس بزنجو دسویں قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔
25جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان کی گیارہویں اسمبلی وجود میں آئی۔ دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ انتخابات سے چند ماہ قبل صوبے کے سیاسی رہنمائوں نے’’ بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ نامی ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی، جس نے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی اور میر عبدالقدّوس بزنجو اسپیکر، سردار بابر موسیٰ خیل، ڈپٹی اسپیکر جب کہ میر جام کمال خان عالیانی اسمبلی کے 17ویں قائدِ ایوان اور جمعیت علمائے اسلام کے ملک سکندر ایڈووکیٹ قائدِ حزبِ اختلاف منتخب ہوئے۔
بعد ازاں، وزیر اعلیٰ کے خلاف اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی، تو اس دوران اُن کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی اختلافات سامنے آئے، جس کے باعث میر جام کمال نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور میر عبدالقدّوس بزنجو گیارہویں اسمبلی کے دوسرے اور مجموعی طور پر 18ویں قائدِ ایوان اور جان محمّد جمالی اسپیکر منتخب ہوئے۔
یہاں دل چسپ اَمر یہ ہے کہ میر عبدالقدّوس بزنجو دونوں مرتبہ ہی تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ بلوچستان کی بارہویں اسمبلی 8 فروری 2024ء کے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آئی ہےاور اس میں پاکستان پیپلز پارٹی 17ارکان اسمبلی کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، جب کہ پاکستان مسلم لیگ نون 16ارکان کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
دیگر جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام نے 12، بلوچستان عوامی پارٹی نے 5، نیشنل پارٹی نے 4، عوامی نیشنل پارٹی نے3، جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی اور حق دو تحریک نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ مذکورہ اسمبلی نے میر سرفراز بُگٹی کو قائدِ ایوان، جب کہ کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کو اسپیکر اور غزالہ گولہ کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیاہے۔ اور بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد معاہدے کے تحت پہلے ڈھائی سال قائدِ ایوان پیپلز پارٹی سے ،جب کہ آخری ڈھائی سال مسلم لیگ نون سے ہوگا۔