ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بے شک ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا، کیوںکہ ہم ہی خبردار کرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃ الدخان)ایک اور جگہ آتا ہے:’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ)معلوم ہوا کہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے، لہٰذا اس ماہ مبارک کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ اللہ کے بابرکت کلام کی تلاوت کی جائے۔
حضرت عثمانؓ روایت کرتے ہیں حضوراکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن پڑھیں اور پڑھائیں۔‘‘امّ المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں ماہر ہے، وہ شخص ایسے لکھنے والے (فرشتوں) کے ساتھ ہوگا، جو نیک ہیں اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور یہ اس کے لیے مشکل ہے (یعنی اٹکتا ہے) اس کے لیے دگنا اجر ہے۔‘‘ (ترمذی)اس حدیثِ نبویؐ میں تلاوتِ قرآن مجید کی فضیلت اجرکے حوالے سے بیان فرمائی گئی ہے کہ جولوگ صاف لہجے میں تلاوت کرتے ہیں تو ان کا مقام بہت بلند ہے اور جو لوگ تلاوتِ قرآن مجید میں اٹکتے اور صاف لہجے میں نہیں پڑھ سکتے اور پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ صحیح پڑھ لیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے دو اجر ہیں، پہلا اجر تو تلاوتِ قرآن مجید کی وجہ سے ہے اور دوسرا اجر باوجود اٹکنے کے محنت اور مشقّت سے تلاوت کرنے پر ملتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا ’’جس نے قرآن کریم میں سے ایک حرف پڑھا، اسے اس کے بدلے ایک نیکی دی جائے گی اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ’’الٰمٓ‘‘ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام بھی ایک حرف ہے اور میم بھی ایک حرف ہے۔‘‘(ترمذی)
اللہ تعالیٰ تلاوت کرنے والے کو ہر حرف پر دس نیکیوں کا اجر عطا فرماتا ہے۔ انسان اگر ایک لمحے کے لیے سوچے کہ ایک نیکی کرنا خود ایک فعل انجام دینا ہے،مثلاً راستہ چلتے درمیان میں کانٹا آجائے یا بیچ راستے میں پتھر، لکڑی وغیرہ پڑی ہو جس سے مسافروں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو اسے ہٹادیناچاہیے اور یہ فعل ایک نیکی ہے۔ اب اس کے مقابلے میں تلاوت کے اجر کو دیکھیں تو صرف ’’الٰمٓ‘‘ پڑھنے سے 30 نیکیاں نامۂ اعمال میں جمع ہوجاتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق قرآن مجید میں حروف کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے،اس طرح لاکھوں نیکیاں بندۂ مومن کے نامۂ اعمال میں جمع ہوجاتی ہیں۔ اگر ہر ماہ میں ایک قرآن مکمل ختم کیا جائے اور سال کے بارہ مہینے قرآن پاک کی تلاوت جاری رہے تو ’’تین کروڑ اٹھاسی لاکھ، اکیاون ہزارسے زیادہ نیکیاں ملتی ہیں۔ اگر اتنے ہی نیک کام کر کے اجر کے حصول کی کوشش کی جائے تو کتنی طویل عمر درکار ہوگی؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر خاص عنایت فرمائی کہ انہیں تلاوتِ قرآن مجید کا اتنا عظیم الشان اجر عنایت فرماتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے دن صاحب قرآن آئے گااور قرآن اپنے رب سے عرض کرے گا،یا اللہ، اسے تاج پہنا، پھر اسے کرامت کا تاج پہنایا جائے گا۔ (قرآن) عرض کرے گا یااللہ،اسے زیادہ دیجیے، چناںچہ اسے کرامت کا جوڑا بھی پہنایا جائے گا۔ پھر وہ (قرآن) عرض کرے گا یا اللہ،اس سے راضی ہوجا تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا۔پھر اس سے کہا جائے گا کہ پڑھتے جائو اور سیڑھیاں (درجات) چڑھتے جائو اور ہر آیت کے بدلے ایک نیکی زیادہ کی جائے گی۔‘‘ (ترمذی)
رمضان میں نبی اکرم ﷺ جبرا ئیل ؑکوقرآن سناتے ۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں’’رمضان میں ہر رات جبرائیل ؑ آپ ﷺسے ملا قات کرتے تھے اور نبی اکرم ﷺ رمضان گزرنے تک انہیں قرآن سناتے۔‘‘(صحیح بخاری)ایک اور حدیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ ہر سال جبرائیل ؑکو ایک بار قرآن (کا نازل شدہ حصہ ) سناتے اور(وفات سے پہلے) آخری سال آپ ﷺنے دو بار سنایا۔ (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پڑھنے والوں کو ایسی کامیاب تجارت کی خوش خبری دی ہے جس میں کسی قسم کا گھاٹا نہیں، فرمایا:’’وہ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور نماز قائم کرتے ہیں، جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے، اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں ہر گز خسارہ نہ ہوگا۔‘‘(سورۃ الفاطر)
حضرت عبد ﷲ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:’’ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور اپنی خواہش (پوری کرنے) سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا :اے میرے رب ! میں نے اس بندے کو رات کوسونے سے روکے رکھا (قیام کے لیے) لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘ (مسند احمد)
عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید بہ نسبت دن کے رات کو پڑھنا زیادہ افضل ہے کیونکہ آپ ﷺ ہر رات جبرائیل ؑ کو قرآن سناتے تھے۔ (صحیح البخاری) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’صاحب قرآن سے (روز قیامت )کہا جائے گا:قرآن پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور اس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کر جس طرح تو دنیا میں ترتیل سے پڑھتا تھا۔پس تیرا مقام وہ ہو گا، جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی۔‘‘ ظاہر ہے ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جس کے سینے میں قرآن محفوظ ہو۔ (سنن ابی داؤد)
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھے ہوں،وہ اللہ کی کتاب پڑھیں اور اس کو پڑھائیں۔ ان پر اطمینا ن نازل ہوتا ہے،رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے،فرشتے ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کاذکر ان فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس موجود ہیں۔‘‘(صحیح مسلم)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ خیر کی بخشش اور خلق خدا کی نفع رسانی میں اللہ کے سب بندوں سے فائق تھے‘ اور رمضان المبارک میں آپﷺ کی یہ کریمانہ صفت اور زیادہ ترقی کر جاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات میں جبرائیل امینؑ آپ سے ملتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید سناتے تھے۔ جبرائیل آپﷺ سے ملتے تو آپﷺ کی اس کریمانہ نفع رسانی اور خیر کی بخشش میں اللہ کی بھیجی ہوئی ہوائوں سے بھی زیادہ تیزی آ جاتی اور زور پیدا ہو جاتا۔