• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے بشمول سپریم کورٹ کے چار،اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سمیت آٹھ جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے چار ججوں کو فرضی یا حقیقی ناموں سے لکھے گئے دھمکیوں کے ساتھ اور سفوف آمیز خطوط ملنے کا معاملہ انتہائی سنگین اورعدلیہ کی آزادی اور وقار پر حملہ ہےجس کا مقصد سراسیمگی پھیلانا بھی ہوسکتاہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مواصلاتی نظام کی موجودگی میں متعلقہ محکمے اور اس کے اہل کاروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔معاملے کا کھوج نہ لگنا ،حالات کی بے بسی کی ایک تصویر ہی قرار دی جاسکتی ہے جو صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔ فرانزک تجزیاتی رپورٹ حکام کو موصول ہوگئی ہے جس سےخطوط میں رکھے گئے سفوف میں شامل آرسینک کی 10فیصد مقدار کی موجودگی ظاہر ہوتی ہے۔فرانزک لیبارٹری ذرائع کے مطابق خطوط میں رکھے گئے پائوڈر میں آرسینک کی 70فیصد سے زیادہ مقدار بہت زہریلی ہوتی ہے اور اس کے سونگھنے سے انسانی اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں ۔وزیراعظم شہباز شریف کا جمعرات کے روز وفاقی کابینہ سے خطاب اس معاملے میں ان کی گہری تشویش کا اظہار ہے ۔ان کے بقول، اس معاملے پر سیاست کی بجائے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔وزیراعظم کے یہ الفاظ ان مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں جو عموماً ایسے معاملات سیاسی بحث و مباحث اور الزام تراشیوں کو جنم دیتے ہیں جس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہو یا افراتفری پھیلے۔خطوط ملنے کے بعدوزارت داخلہ، اسلام آباد پولیس اور سی ٹی ڈی تحقیقات میں ان کے پس پردہ اور ظاہری عوامل کا جائزہ لے رہے ہیں جن میں خط لکھنے والے نے خود کو خاتون ظاہر کیا ہے۔دستیاب شواہد کی رو سے متعلقہ ڈاک خانے کی سی سی ٹی وی کا جائزہ لیاگیا،ایک اہل کارکو گرفتاری اور پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا ،بعد ازاں تمام خطوط سی ٹی ڈی کے سپرد کردیے گئے ہیں۔پولیس کو درج کرائے گئے مقدمات میں اس معاملے کو خطوط کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے ۔شواہد کے مطابق خطوط ہاتھوں سے تحریر نہیں کیے گئے ،انھیں کمپوز کیا گیا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر سفوف تھا اور متعلقہ اہل کار کی آنکھوں میں جلن شروع ہوگئی۔اس نے فوری طور پر خود کو سینیٹائز کیا ۔ خط کے متن میں لفظ انتھریکس نمایاں کیا گیا تھا۔یہ ایک متعدی بیماری کا نام ہے جو جانوروں میں پیدا ہوتی ہے اور انسان کو منتقل ہونے کی صورت میں جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ۔ یہ علامات ملحوظ رکھتے ہوئے طبی نقطہ نظر سے خط کھولنے والے اہل کاروں کی صحت پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ان خطوط کی روشنی میں ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں اورسوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں جن کا فی الفور خاتمہ ضروری ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کی طرح دنیا بھر میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جب خطوط میں زہریلا پائوڈر ڈال کرلوگوں کو ہلاک کیا گیا۔بعض مواقع پر اس نوعیت کے دیگر سفوف کو انتھریکس کا نام دے کر مخالفین کو ڈرایا یا خوفزدہ کیا گیا۔طبی ماہرین انتھریکس کی علامات میں بخار، چھاتی میں تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، پیٹ میں درد، الٹیاں سر درد اور پسینے آنے کو شامل کرتےہیں۔ متذکرہ خطوط کے حوالے سے معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہوئےاس کے عوامل کا پتا لگایا جانا ضروری ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف انکوائری کا اعلان کر چکے ہیں جس کا دائرہ اس قدر وسیع ہونا چاہئے کہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔حقائق پر سے پردہ اٹھایا جانا بہرحال ضروری ہے کیونکہ آزاد عدلیہ کا وجود ایک فلاحی مملکت کی بنیاد ہے۔

تازہ ترین