• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)‎

آج ہمارے بہت سےلوگوں کو غلط فہمی ہے کہ گڈ طالبان یعنی تحریک طالبان افغانستان والے ،بیڈ طالبان یعنی تحریک طالبان پاکستان کو لگام دیں گے؟ ان لوگوں کو ادراک ہی نہیں کہ ان صالحین کے نزدیک اسلامی اخوت کا تصور کتنا گہرا اور جاندار ہے۔درویش کیوطن عزیزکے ذمہ داران کی خدمت میں دست بستہ گزارش ہے کہ وہ طالبان کو ضرور اپنا بھائی سمجھیں ان سے اچھے تعلقات استوار کریں مگر مذہبی جنونیت و ذہنیت کی سرپرستی کرنا چھوڑ دیں ۔ اپنے تمام ہمسایوں سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کے لیے تمام تر تنازعات کو ایک طرف رکھ کر تو دیکھیں۔ اس سے بھی بڑھ کر اپنے ملک کے اندر غیر انسانی رویے ختم کریں۔

پاک افغان دو طرفہ تجارت کے لیے اعلیٰ سطحی وفد بھیج کر اچھا اقدام کیا گیا ہے افغان وزیر تجارت کا یہ بیان قابلِ فہم ہونا چاہیے کہ اسلام آباد کی غیر ضروری پابندیوں نے کاروبار ناممکن بنادیا ہے۔ باہمی تجارت میں درپیش رکاوٹوں کو دور کریں ہمارے وزیر خارجہ کا تازہ بیان بھی ہوا کاایک خوشگوار جھونکا ہی کہلائے گا جو انہوں نے لندن سے جاری کیا ہے، یہ کہ پاکستان کے تاجر اور کاروباری حضرات بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں اس لیے پاکستان اب اس امر کا جائزہ لے گا کہ انڈیا کے ساتھ کاروباری تعلقات کیونکر بحال ہوسکتے ہیں۔‎

یہ ملک پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے جس طرح معاشی طور پر ہمارا کچومر نکل چکا ہے اسی طرح سیاسی طور پر بھی جیسی جمہوریت یہاں نافذ العمل ہے اسے دیکھ کر ترس آتا ہے آئینی شقیں جو بھی کہتی ہیں بالفضل اس وقت ہماری روایتی ٹرائیکا ڈنگ ٹپائو پالیسی چلا رہی ہے۔ معاشرتی و سماجی حوالے سے ہماری سوسائٹی فکری و نظری تضادات اور کنفیوژن کی دلدل میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔

سفارتی طور پر ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ہمارا رخ واشنگٹن کی طرف ہے یا بیجنگ کی جانب؟ ترک ہماری مدد کیا کریں گے ان کی اپنی معیشت مسائل کا شکار ہے روایتی امریکی گرانٹس بند ہو چکی ہیں آجاکے سعودی عرب اور امارات والے عرب دوست بچتے ہیں مگر ان کی ترجیحات ہماری نسبت ہمارے ’’ازلی دشمن‘‘کے ساتھ زیادہ میل کھا رہی ہیں سمجھنے کیلئے کیا یہ حقیقت واضح نہیں ہے کہ آج انڈین کشمیر میں سب سے زیادہ انویسٹمنٹ ہمارے انہی برادر مسلم عرب ممالک کی ہے اور وہ ہمیں ہر ملاقات میں یہ سمجھاتے ہیں کہ انڈیا دشمنی کواپنے دماغ سے نکال دو لیکن ہم فی الحال آمادہ نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ادھر سے جب بھی کوئی تہنیتی پیغام آتا ہے چاہے ہمارے کسی وزیر اعظم یا صدر کو منتخب ہونے پر مودی کی طرف سے بھیجا جائے ،ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ہم نے شہد میں سرکہ ڈال کر چھوڑنا ہے نتیجتاً پرنالا جہاں ہے وہیں رہنا ہے۔‎

اگر کسی سے دوستی بنانے یا نبھانے کا ارادہ ہوتو انسان بہت سی ایسی باتوں سے اغماض برت لیتا ہے جو تعلقات میں منافرت کا زہر بھرنے والی ہوں لیکن اگر بندہ موقع بے موقع ناممکن العمل تقاضے لیکر ہمہ وقت انہی کو دہراتا چلا جائے تو پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے جسے ہم پاک و ہند کشیدگی کی صورت ملاحظہ کر سکتے ہیں اور ذرا نہیں سوچ رہے کہ آج ہم انڈیا سے روایتی مسابقت کی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں ادھر جتنی ترقی ہوئی ہے ادھر اتنی ہی تنزلی ہو چکی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم جہاں پہلے یہ کہتےپائے جاتے تھےکہ میرے عرب بھائیو ہم بھکاری یا مانگت نہیں ہیں بس ذرا یہ ہے کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں رہے اس لئے مجبوری ہے آپ ہماری مدد کریں ،اب وہی رازدارانہ انداز میں یہ اسٹوری سنا رہے ہوتے ہیں کہ ہم اپنے دوستوں کو جب یہ کہتے ہیں کہ ہم بھکاری بن کر مانگنے نہیں آتے ہیں یا یہ کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے تب بھی وہ اس پر یقین نہیں کرتے ،وہ کہتے ہیں کہ نہیں تم نے کشکول توڑا نہیں اپنی بغل میں چھپا رکھا ہے موقع ملتے ہی اسے نکال کر ہمارے سامنے رکھ دو گے۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں ہمارے وزیر خارجہ نے یہ بیان دیا کہ ہمارے تاجر انڈیا سے تجارتی تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں ۔‎اس وقت تمام سروے اور جائزے اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ پاک بھارت بیوپار یا تجارتی تعلقات کی بحالی کا اصل فائدہ انڈیا کو نہیں پاکستان کو ہے جسے ہم نے اپنی جھوٹی انا اور اکڑ کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے ۔تھوڑی سمجھ بوجھ والا شخص بھی اتنا ادراک کر سکتا ہے کہ جو مال جتنی مسافت سے منگوایا جاتا ہے اتنی ہی اس کی لاگت بڑھ جاتی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈیا نے اپنی صنعت ہی کو نہیں زراعت کو بھی جتنی ترقی دی ہے بوجوہ ہم نہیں دے سکے، ہم لوگ ترقی کی دوڑ میں خاصے پیچھے رہ گئے ہیں کرنسی فرق کے باوجود قیمتوں میں فرق اس قدر خوفناک ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں کرنی چاہئے تھی۔‎اگر ہم نے آج واقعی اس نوع کا ذہن بنا لیا ہے اور ہم صدق دل سے یہ چاہتے ہیں کہ منافرتوں کو کارنر کرتے ہوئے انڈیا سے ہمسائیگی کے خوشگوار تعلقات استوار کریں گے تو اس کا اولین بدیہی تقاضا یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر منافرت بھری ذہنیت سے چھٹکارا پائیں فوری طور پر اپنے عسکری طاقتوروں کو اعتماد میں لیں کیونکہ اس تضادستان میں ان دنوں ملک کی کمزور ترین سیاسی حکومت رینگ رینگ کر چل رہی ہے جس کا کوئی سر ہے نہ پائوں جو از خود عسکری بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور عملاً یہاں وزیر اعظم یا پارلیمان کی بالادستی نہیں بلکہ وہی پرانی ٹرائیکا بن چکی ہے صدر بھی محض برطانوی ملکہ جیسا نہیں بلکہ جوڑ توڑ کا وہ بادشاہ ہے جو جب چاہے آپ کی کرسی کھسکاسکتا ہے اور معاملہ نئے مینڈیٹ تک پہنچا سکتا ہے۔ اندھوں پر بھی واضح ہے کہ ہمارا موجودہ جمہوری سیٹ اپ کس کا مرہون منت ہے اسلئے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ لوگ بھارت سے تجارتی تعلقات تو دور کی بات ان کی اشیر باد کے بغیر سلام دعا کے بھی روادار ہوں پچھلے دور میں جب جنرل باجوہ نے بوجوہ نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دی تھی بلکہ کھلے بندوں یہ کہہ دیا تھا کہ کشمیر ایشو کو فریز کرتے ہوئے بھارت سے تجارت ہمارے قومی مفاد میں ہے نیز یہ بھی کہ فی زمانہ ممالک نہیں خطے ترقی کرتے ہیں مگر تب کی کوتاہ اندیش اناڑی حکومت اس کاادراک کر سکی نہ اس کے اندر ایسے بولڈ اقدام کا حوصلہ تھا۔ وزیر تجارت بن کر جس امر کی منظوری دی تھی وزیر اعظم کی حیثیت سے یوٹرن لے لیا۔‎ درویش کی پچھلے دنوں خارجہ امور پر ملک کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی تو وہ گویا ہوئے کہ میں تو نہ صرف یہ کہ تجارتی تعلقات کی بحالی کے حق میں بولتا چلا آ رہا ہوں بلکہ انڈیا کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دلوانے کی بھرپور وکالت کرتا رہتا ہوں ۔یہاں کونسا ایسا صاحب نظر ہے جو اس گھمبیرتا کا ادراک نہ رکھتا ہو مگر دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں خود اہل ہند کے شبہات اور تقاضے کیا ہیں اور ہم خوش دلی کے ساتھ انہیں کس حد تک قبول کر سکتے ہیں ،بحالی اعتماد یا اعتماد سازی کیلئے کیا ہم واقعی کوئی ٹھوس اقدامات کر سکتے ہیں بقول اقبال‎

’’اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ‘‘

تازہ ترین