• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اُس نے مجھے بالآخر سرخرو کر دیا۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے پی ٹی وی کیس کا فیصلہ اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ۔چھ سال پہلے یہ کیس ثاقب نثار نے شروع کیا تھا اور آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک ایسا مضحکہ خیز فیصلہ جاری کیا تھا جس کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔ اِس کیس کے مضحکہ خیز ہونےاور ثاقب نثار کے بغض کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی پر ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ کے نام سے میں جو پروگرام کرتا تھا ، موصوف نے فیصلہ دیا کہ اگر پروگرام اور اُس کے پرومو کی جگہ اشتہارات چلائے جاتے(جو کبھی پی ٹی وی کو ملے ہی نہیں ) تو اُس کی آمدن کروڑوں روپے ہوتی لہٰذا وہ فرضی آمدن عطا الحق قاسمی ، پرویز رشید ، فواد حسن فواد اور اسحاق ڈار سے وصول کی جائے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہےجیسے آج پی ٹی وی پر جو پروگرام اور پرومو نشر کیے جا رہے ہیں اُن کے متعلق یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ اشتہارات کی جگہ چلائے جا رہے ہیں (جو پی ٹی وی کو ملے ہی نہیں)، اور پھر اُس کی فرضی آمدن بنا کر ایم ڈی یا چیئرمین کے کھاتے میں ڈال دی جائے ۔اِس کے علاوہ بھی بے شمار مضحکہ خیز باتیں تھیں جو اُس دور میں کی گئیں ، کردار کُشی کی گھناؤنی مہم میرے خلاف چلائی گئی ، بیہودہ ،جھوٹے اور غلیظ الزامات لگائے گئے ۔ظاہری اور باطنی حاسدین کو بھی خوب موقع ملا کہ وہ اِس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو لیں، ایسے میں دوست دشمن بھی پہچانے گئے ۔میں نے صبر کے ساتھ یہ سب کچھ برداشت کیا ، میں جانتا تھا کہ مجھے صرف اپنے نظریات پر کاربندرہنے کی سزا مل رہی ہے۔چرچل نے شاید اسی موقع کے لیے کہا تھا : You have enemies? Good. That means you've stood up for something, sometime in your life۔آپ خدا کے کام دیکھیں کہ اسی سپریم کورٹ نے مجھ پر لگنے والے تمام الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور اپنے دو ٹوک فیصلے کے ذریعے مجھے خدا کے حضور سجدہ شکر ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔ میں محترم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں جن کے اِس فیصلے نے اعلیٰ عدلیہ کے ماتھے پر لگا ہوا ایک اور داغ دھو ڈالا۔ یہاں یہ بات ریکارڈ پر لانی ضروری ہے کہ یہ فیصلہ تمام حقائق کا احاطہ کرکے میرٹ پر کیا گیا ہے، قانون دان احباب اس بات کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ کسی قانونی موشگافی کو جواز بنا کر نہیں کیا گیا۔ میں اُن تمام یو ٹیوبرز ، وی لاگرز ،کالم نگاروں اور تجزیہ کاروںکا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں جو اِس مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے اور جنہوں نے اِس فیصلے کے بعد خصوصی پروگرام کیے اور کالم لکھے۔ میں فرداً فرداً سب کا نام نہیں لکھ سکتا کیونکہ میری یاد داشت قابل رشک نہیں ، ایسا نہ ہو کہ کسی ایک کا نام یاد نہ رہے اور دوست ناراض ہوجائیں۔میں پرویز رشید اور فواد حسن فواد کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ، پرویز رشید تو صبر و استقامت کا ایسا پیکر ہے کہ جس کی مثال آج کے مادی دور میں ملنی مشکل ہے اور فواد حسن فواد کے بارے میں کیا لکھوں کہ اِس ’’نوجوان‘‘ نے سپریم کورٹ میں اِس کیس کا دفاع کرتے ہوئے میرے بارے میں جو کلمات کہے وہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اسی طرح اکرم شیخ صاحب ، جو اِس کیس میں میرے وکیل تھے، انہوں نے بھی اپنی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کیس کی جس طرح پیروی کی وہ میں نہیں بھول سکتا۔میں نے یہ کالم یہاں تک ہی لکھا تھا کہ میرا ایک دوست وارد ہوگیا، اُسے میں نے یہ کالم دکھایا تو اُس نے کہا کہ یہ کافی سنجیدہ ہوگیا ہے اب اُس میں کوئی لطیفہ بھی ڈال دو۔ میں نے کہا کہ پی ٹی وی کا سارا کیس ہی کسی لطیفے سے کم نہیں تھا، اِس پر اُس نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اگر آج ثاقب نثار عرف بابا رحمتاریٹائر ہو کر بے روزگار نہ ہوگئے ہوتے تو وہ کسی کا روزگار نہ رہنے دیتے، مثلاً وہ کہتے کہ ہم جو مالٹے خریدتے ہیں، کیلے خریدتے ہیں، خربوزے خریدتے ہیں، سبزیوں میں آلو ،شلجم وغیرہ خریدتے ہیں تو ہم اِن کے چھلکے اتار پھینکتے ہیں جبکہ دکاندار ہم سے اُن چھلکوں کی قیمت بھی وصول کر تے ہیں جو ہم نے استعمال ہی نہیں کیے ہوتے، یہ سراسر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہے لہٰذا پھل اور سبزی فروشوں سے کروڑوں روپے وصول کیے جائیں۔ مگر اب یہ سب کہنے کا کیا فائدہ کیونکہ ان دنوں تو ہمارا بابا رحمتا عدالت تو کیا اپنے گھر میں بھی نہیں ہے بلکہ حسب وعدہ ایک جھونپڑی میں بیٹھا مبینہ طور پر اُس ڈیم کی حفاظت کر رہا ہوگا جس کیلئے اُس نے عوام سے دل کھول کر رقم بھجوانے کی اپیل کی تھی۔میرا یہ دوست کچھ دیر تک ایسی ہی دلچسپ گفتگو کرتا رہا اور پھر اچانک سنجیدہ ہو کر کہنے لگا کہ اس نام نہاد بابے رحمتے نے ہر کام کیا سوائے اس کام کے جس کی اسے تنخواہ ملتی تھی یعنی انصاف کرنا۔ اگر کسی سے کروڑوں روپوں کی وصولی بنتی ہے تو وہ بابا رحمتا خود ہے جس نے چیف جسٹس کا لبادہ اوڑھ کر کبھی اسپتالوں پر چھاپے مارے، کبھی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ بنانے والے ڈاکٹرکی بے عزتی کی، کبھی عالمی شہرت کے حامل ڈیزائنر محمود بھٹی کے ساتھ بد کلامی کی، کبھی اساتذہ کو جرم ثابت ہوئے بغیر ہتھ کڑیاں لگوائیں، کبھی حسین نقی کو کٹہرے میں کھڑا کیا اور آئے دن بغیر ٹرائل کیے با عزت لوگوں اور شرفا کی سر عام پگڑیاں اچھالیں۔ میں نے اپنے دوست کی تمام گفتگو سننے کے بعد کہا کہ تم بالکل ٹھیک کہتے ہو، مگر میں اپنا اور تمہارا موڈ اس بابے کے متعلق بات کرکے مزید خراب نہیں کرنا چاہتا۔ بقول منیر نیازی یہ وہ شخص ہے جو اپنی غیر موجودگی میں بھی لوگوں کا وقت برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نوٹ: میری لکھائی بے حد خراب ہے سو کاتب صاحب سے درخواست ہے کہ کالم ٹائپ کرتے وقت ثاقب نثار کے نام کے درست ہجے لکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ نام کچھ کا کچھ بن جائے اور لوگ اسے اسم با مسمٰی سمجھیں۔ شکریہ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین