• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے دو ارب مسلمان اپنی ستاون خودمختار کہلانے والی مملکتوں اور باقی دنیا میں رمضان کے با برکت مہینے میں روزوں، نمازوں اور صدقات و خیرات کے باوجودعید الفطر اس حال میں منارہے ہیں کہ غزہ میں سفاک اسرائیلی حکمرانوں کے ہاتھوں چھ ماہ سے جاری مسلمان بھائی بہنوں کے قتل عام اور اس پر عالمی طاقتوں اور مسلم حکمرانوں کے زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھنے پر ان کے دل زخمی اور آنکھیں اشک بار ہیں۔ برسوں سے اسرائیلی پابندیوں کے سبب دنیا سے کٹا ہوایہ شہر مسلسل بمباری سے رہائشی بستیوں، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت مکمل طور پر تباہ ہوگیاہے ، معصوم بچوں اور عورتوں سمیت چالیس ہزار سے زائد شہری اسرائیلی سفاکی کا نشانہ بن کر شہید ہوچکے ہیں اور دس لاکھ کے قریب وہ اہل غزہ بھی جو مصری سرحد سے متصل رفح کے علاقے میں پناہ گزیں ہیں، اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ دوسری جانب انجمن اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون تنظیم ، عرب لیگ اور پوری عالمی برادری سب عملاً غزہ کی تباہی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ عالمی امن کی علم برداری کے سب سے بڑے دعویدار امریکی حکمراں اسرائیل کو مسلسل خطیر مالی وسائل اور جدید ترین ہتھیار فراہم کرکے اس انسانیت کشی میں عملاً شریک ہیں۔ فلسطین ہی کی طرح کشمیر کے مسلمان بھی انسانیت سوز ریاستی مظالم کا شکار ہیں ۔ مودی سرکار نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ریاست کی متنازع حیثیت کو بدل کر اسے بھارت کا حصہ قرار دے ڈالا لیکن اس کھلی دھاندلی پر بھی عالمی برادری خاموش تماشا ئی بنی رہی اور اسلامی تعاون تنظیم کے ستاون ملک کسی مؤثر ردعمل سے بھی قاصر رہے۔ بے اندازہ قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم ممالک اورکرہ ارض کی آبادی کے چوتھے حصے پر مشتمل مسلمان آخر اس بے بسی اور کس مپرسی کا شکار کیوں ہیں؟اس کا جواب رہبرکامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی میں کچھ یوں موجود ہے کہ ’’قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں‘‘ سوال ہوا’’ کیا ہم اس وقت تعداد میں بہت کم ہوں گے؟ جواب ملا ’’نہیں، تمہاری تعداد تو بہت ہوگی لیکن یہ کثرت سیلاب کی جھاگ کی طرح ہوگی کیونکہ تمہارے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف رچ بس گیا ہوگا۔‘‘( بحوالہ سنن ابی داؤد، روایت حضرت ثوبان ؓ)۔ تاہم ابھی رمضان میں ہم نے جس قرآن کی شب و روز تلاوت کا اہتمام کیا ہے وہ تو ضمانت دیتا ہے کہ’’ تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘۔پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایسی بے بسی اور بے وقعتی سے دوچار ہیں۔ اس اشکال کا جواب قرآن کے اس حکم میں ملتاہے کہ ’’ ادخلوا فی السلم کافہ‘‘ یعنی اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ گویا دنیا اور آخرت میں عزت و سرفرازی پورے کے پورے دین کو اختیار کرنے سے مشروط ہے جبکہ کتاب الٰہی کے بعض احکام پر عمل اور بعض سے روگردانی کو سورہ بقرہ کی 85 ویں آیت میں دنیا کی زندگی میں ذلت وخواری اور آخرت میں عذاب کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ اب بھلاکون اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ ہم نے معاشرت، معیشت، سیاست، عدالت، تعلیم، کاروبار، معاملات، اخلاق و کردارغرض زندگی کے ہر شعبے سے اسلام کو عملاً بے دخل کررکھا ہے ، ہم نے دین کو نظام زندگی نہیں بنایا بلکہ رسمی عبادات تک محدود کردیا ہے، ہم غیروں کی اندھی تقلید اور ذہنی غلامی کا شکار ہیں ، یوں ہماری عیدیں بقول اقبال شکوہ ملک و دیں کے بجائے محض ہجوم مومنیں بن گئی ہیں جبکہ آئے دن سامنے آنے والی خبروں کے مطابق اسلام کی صداقت آج بھی غالب اقوام کے باشعور افراد کے دلوں کو فتح کررہی ہے جس سے واضح ہے کہ پورے دین کو اختیار کرکے ہم اپنے رب کی رضا وخوشنودی کے ساتھ ایک بار پھر دنیا میں عزت و سربلندی کا مقام پاسکتے اور اپنی عیدوں کوعید آزاداں بناسکتے ہیں۔

تازہ ترین