• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچ رہا تھا کہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو کیا مشورہ دیا جائے۔ آرٹسٹ آدمی ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ جہاں رنگ بولتے ہیں، جہاں آوازوں کو چھو کر دیکھا جاتا ہے۔ جہاں خوشبو سے گیت سنے جاتے ہیں۔ پھر مجھے وہ ریلوے ٹریک یاد آیا جس کا سفر میں کبھی بھلا ہی نہیں سکتا۔ یقین کیجئے انگلش فلموں میں بھی ایسے مناظر نہیں ملتے جو وہاں حقیقت میں دکھائی دئیے تھے۔ یہ شاید انیس سو بیاسی کی کسی اتوار کا خوشگوار دن تھا۔ ہم چند دوست پشاور ریلوے اسٹیشن سے لنڈی کوتل جانے کیلئے ریل گاڑی میں سوار ہوئے۔ ریل گاڑی پشاور ایئر پورٹ کے اندر سے گزری تو وہاں سے ایئر پورٹ بہت دلکش لگا۔ پشاور کے بعد پہلا اسٹیشن جمرود آیا، اس کے بعد بگیاراری، میڈانگ، چاغی، شاہگئی، کٹا کشتہ اور سلطان خیل ہوتے ہوئے ریل گاڑی لنڈی کوتل پہنچی۔ یہ گاڑی لنڈی کوتل سے آگے تورخم بارڈر تک جاتی تھی جہاں اس کا آخری اسٹیشن لنڈی خانہ تھا۔ ہم نے راستے میں آنے والی سرنگیں شمار کی تھیں، چونتیس تھیں، چھوٹے بڑے پل بھی گنے تھے جہاں تک یاد پڑتا ہے بانوے تھے۔ افسوس کہ ہم میں سے کسی دوست کے پاس کیمرہ نہیں تھا۔ اتنے خوبصورت متاثر کن منظر تھے کہ جی چاہتا تھا پہلے واپس جا کر کیمرہ لے آئیں اور پھر ان منظروں کو دیکھیں۔

یہ اٹھاون کلو میٹر لمبا پہاڑی ٹریک اٹھارہ سو اسی میں برطانوی حکومت نے اسلحہ اور جنگی ساز وسامان افغانستان لے جانے کیلئے بچھایا تھا۔ کوئی چار سال کے بعد جب میں نے پہلا ویڈیو کیمرہ خریدا تو پھر اسی سفر کا پروگرام بنایا مگر معلوم ہوا کہ وہ ریل گاڑی تو اسی سال بند کر دی گئی تھی۔ بہت دکھ ہوا۔ پھر جب میں برطانیہ تھا تو پتہ چلا کہ اسی ٹریک پر پشاور سے لنڈی کوتل تک ایک سفاری ٹرین چلائی گئی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ دو ہزار پانچ میں پاکستان آیا تو وہاں جانے کا پروگرام ترتیب دیا مگر کچھ ناگزیر مصروفیات کے سبب رہ گیا۔ دو سال کے بعد پھر پاکستان آیا تو پتہ چلا کہ چند دن پہلے سفاری ٹرین بند کر دی گئی ہے۔ آج کالم لکھنے کیلئے اس کے متعلق کچھ معلومات تلاش کیں تو پتہ چلا کہ صرف پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے اس سفاری ٹرین پر سفر کیا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہائی کمیشن آف یورپ کا 15 رکنی وفد بھی سیر کیلئے گیا۔ کئی اور اہم شخصیات کے علاوہ برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے نواسے سپنسر چرچل نے بھی اس سفاری ٹرین پر سفر کیا۔ دو آسٹریلوی شہریوں نے جب سفاری ٹرین سے کھینچی گئی تصویریں دیکھیں تو انہوں نے پوری ٹرین ہی ریزرو کرا لی۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں برطانوی ملکہ نے بھی اس ٹرین پر سفر کیا تھا۔جب بھی پاکستان اور افغانستان میں ریلوے لائن بچھانے کی فزیبلٹی بنائی گئی تو اسی ریلوے ٹریک کو جلال آباد تک بڑھانے کا سوچا گیا۔ کہتے ہیں کہ بہت ہی کم اخراجات سے جلال آباد تک یہ ریلوے ٹریک مکمل کیا جا سکتا ہے۔

اگرپشاور سے لنڈی کوتل تک کے ہی اس تاریخی ریلوے ٹریک کو دوبارہ قابل استعمال بنا دیا جائے تو خیبر پختون خوا کو معاشی طور پر خاص طور پر ٹورزم کے حوالے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ مشورہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کو دے رہا ہوں اور یہ ریلوے کا محکمہ وفاق کے پاس ہے۔ نہ وفاق نے اسے صوبے کے حوالے کرنا ہے اور نہ ریلوے ٹریک بحال ہونا ہے۔ سو بہتر ہے انہیں کوئی مشورہ دیا جائے۔ ان کیلئے دوسرا مشورہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک طویل مدتی منصوبے کا ہے۔ جس سے لوگوں میں موجود شدت پسندی، غصہ اور انتہا پسندی کم ترین سطح پر آئے گی۔ اس میں نیشنل کالج آف آرٹ لاہور کے مقابلہ کا پشاور میں آرٹ کالج بنانا۔ پنجاب آرٹ کونسل کی طرح خیبر پختون خوا کے ہر ضلع میں آرٹ کونسلیں قائم کرنا۔ فلم اور ٹی وی کی تعلیم کو فروغ دینا۔ خاص طور پر پشتو فلم کو دوبارہ زندہ کرنا، موسیقی اور شاعری کیلئے ادارے بنانا۔ تاریخی مقامات کو سیاحت کیلئے تیار کرانا۔ بزرگوں کے مزارات پر عرس منوانا، میلوں ٹھیلوں کو رواج دینا۔ یعنی کلچرل ایکٹویٹی کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا۔ خاص طور پرقانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والوں کو آرٹ اور انسان دوستی کی تعلیم دلانا اور اس کے ساتھ آئین کی بحالی کے لئے نئی نسل کی ذہنی نشو ونما کرنا اس منصوبے کے بنیادی خدوخال ہیں۔ یہ منصوبہ ایک تہذیبی اور تمدنی منصوبہ ہے جو ایک نئے خیبر پختون خوا کو وجود میں لا سکتا ہے۔

سانحہ بہاول پور پنجاب میں ہوا ہے۔ خدانخواستہ اگر خیبر پختون خوا میں ایسا کوئی سانحہ ہو گیا تو جس سطح کا جانی نقصان ہو گا اس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ پھر یہ جو آئین کی بحالی کی تحریک اپوزیشن نے شروع کی ہے۔ جس کا نام ’’تحریک تحفظ آئین‘‘ رکھا گیا ہے۔ اسے تشدد سے محفوظ رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر اس کا بار محمود خان اچکزئی، عمر ایوب یا مولانا فضل الرحمن نہیں اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چھ ججوں کے خط کے کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ فل کورٹ کے سامنے بارِ ثبوت ججز پر نہیں انتظامیہ پر ہے۔ انتظامیہ کٹہرے میں کھڑی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے نو مئی کو ہونیوالے واقعات کی اصل ذمہ دار وہ انتظامیہ ہے جس نے لوگوں کو روکنے کی بجائے جلائو گھیرائو کے مواقع فراہم کیے۔ عوام کتنی بار امریکی سفارتخانہ کی طرف گئے۔ ڈنمارک کے سفارت خانہ جلانا چاہا ہے مگر انتظامیہ نے کبھی ایک حد سے آگے نہیں جانے دیا۔ جب عمران خان نے ڈی چوک میں دھرنا دیا ہوا تھا تو قومی اسمبلی کی عمارت تک کوئی احتجاجی فرد نہیں پہنچ سکا تھا اور بھی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

تازہ ترین