خوشی کا موسم ہے کہ اُمتِ مسلمہ نے اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے رمضان کے روزے رکھے اور تزکیۂ نفس کے عظیم الشان دور سے گزر کر صبرواِیثار کی برکتوں سے فیض یاب ہو ئے۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ایسے میں میرے نوکِ قلم پر سُکھ بھری عید مبارک کی اجنبی سی ترکیب کیوں آئی ۔ شاید اِس کی وجہ ہمارے بلندمرتبہ انشاپرداز جناب عرفان صدیقی اور کمال کے زباں داں جناب وجاہت مسعود بتا سکیں گے جو اِنسانی نفسیات کے علاوہ اَدب اور تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ مجھے اپنے طور پر یہ محسوس ہوا ہے کہ مَیں جب اپنے اہلِ وطن کو ’سُکھ بھری عید مبارک‘ پیش کر رہا تھا، تو شاید میرے اندر کوئی کرب چھپا تھا۔ ایسے میں عدم یاد آئے ؎
زندگی کے حسین لمحوں میں
بےوفا دوست یاد آتے ہیں
مجھے یہ شعر عجیب سا لگا۔ انسانی فطرت عام طور پر خوشی کے وقت اچھے دوستوں کو یاد کرتی ہے، مگر عدمؔ صاحب نے نرالی بات شعر میں ڈھال دی تھی۔ مجھے عید مبارک دیتے ہوئے کچھ خوف محسوس ہونے لگا، کیونکہ ماضی میں مجھ سے ایک غلطی سرزد ہو گئی تھی کہ مَیں نے آنے والے خراب حالات کی پیش گوئی پانچ سال پہلے کر دی تھی اور شاعرانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے مضمون کا عنوان بڑا دِلفریب رکھا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ 1966ء کے اوائل میں شیخ مجیب الرحمٰن نے ڈھاکہ میں چھ نکات کا اعلان کیا۔ وہ اُس وقت عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ ہمارے بیشتر سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اُنہیں غور سے پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور مجیب الرحمٰن پر غداری کے الزام لگانا شروع کر دیے۔ مَیں نے ایک صحافی کی حیثیت سے اُس پمفلٹ کا بغور مطالعہ کیا جس میں چھ نکات کی تفصیلات درج تھیں۔ اِس کے بعد مَیں مشرقی پاکستان گیا اور وَہاں ایک ماہ سے زیادہ قیام کیا۔ غالباً 6 جون 1966ء کو شیخ صاحب نے عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ مَیں نے اُسے مختلف زاویوں سے کور کیا۔ اخبارات میں شائع شدہ خبروں اور تجزیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ شہروں اور قصبوں میں سیاست دانوں، صحافیوں، طالبِ علموں اور مذہبی رہنماؤں سے ملا اور ’’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلۂ مضمون شروع کیا جو پانچ قسطوں پر پھیل گیا تھا۔ پہلی دو قسطوں میں چھ نکات کا پوری طرح احاطہ کیا، اُن میں پیش کیے گئے تاریخی واقعات کی غلطیوں کی نشان دہی کی اور یہ بھی بتایا کہ چھ نکات دراصل علیحدگی کا ایک آئینی منصوبہ ہے۔ ایک قسط میں صراحت سے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور دو قسطوں میں اُن کا قابلِ عمل حل بھی تجویز کیا۔بدقسمتی سے یہ سلسلۂ مضامین حکمرانوں نے پڑھا نہ ہمارے بیشتر دانش وروں اور تجزیہ نگاروں نے۔ میری تجاویز نظرانداز کر دینے کے نتیجے میں پانچ سال بعد یعنی 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بہت خون خرابہ ہوا اَور ہمارے آزاد منش دانش وروں نے یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا کہ جب پاکستان کا مشرقی بازو خون میں نہا رہا تھا، تو پاکستان کے تجزیہ نگار اَلطاف حسن قریشی وہاں محبت کا زم زم بہتا دیکھ رہے تھے۔ مَیں کلیجہ تھام کے نشترزنی کے زخم سہتا رہا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، البتہ کچھ باہمت دانش وروں کی طرف سے اب یہ اعتراف کیا جانے لگا ہے کہ ہم ’’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘ کا مطالعہ کیے بغیر اُس پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ جس معاشرے میں خیرخواہی کی بات لکھنا ہی ایک جرم قرار پائے، وہاں سُکھ بھری عید کی مبارک باد پیش کرنے پر بھی طرح طرح کے اعتراضات اٹھ سکتے تھے کہ مہنگائی اور بےروزگاری سے ہماری جان پر بنی ہے، جبکہ آپ کو مبارک باد کی اٹکھیلیاں سُوجھ رہی ہیں۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری آبادی کا چالیس فی صد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور گزشتہ نصف عشرے کی مہنگائی نے کمزور طبقات کیلئے جینا محال کر دیا ہے۔ اِس اعتبار سے ایک ایسے منصفانہ نظام کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس میں ہر شہری کو زندگی کی بنیادی سہولتیں عزت کے ساتھ میسّر آتی ہیں۔ اِس ضرورت کا احساس اب خواص میں کسی قدر پایا جاتا ہے اور ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کی سنجیدہ کوششیں بھی نظر آ رہی ہیں۔ عسکری اور سیاسی قیادتیں آپس میں تعاون کر رہی ہیں اور وَرلڈ بینک نے آئندہ دو تین برسوں کے دوران غربت میں کمی کے واضح اشارے بھی دیئے ہیں۔مَیں اِس موقع پر یہ گواہی دینا چاہتا ہوں کہ جس غربت سے مسلمان غلامی کے عہد میں گزرے تھے، اُس کا آج تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ مَیں نے وہ عہد بھی دیکھا ہے اور آزادی کی نعمتوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں رات کو کوئی بھی شخص بھوکا سوتا ہے نہ چھت کے بغیر رات گزارتا ہے۔ مجھے ایک بار ممبئی جانے کا اتفاق ہوا، تو دیکھا لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر سوئے ہوئے تھے۔ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اُس نے ہمیں قائدِاعظم کی قیادت فراہم کی اور برِصغیر کے مسلمان اپنا آزاد وَطن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ عالمی مؤرخین اِس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ عالمی لیڈروں میں سے صرف لینن، قائدِاعظم کی عظمت کے کچھ قریب تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہم پر نعمتوں کی بارش جاری رکھی ہے اور ہمیں ترقی کے غیرمعمولی مواقع فراہم کیے ہیں۔ لاکھوں پاکستانیوں کی قابلیت اور محنت سے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اَور آسٹریلیا کی معیشتیں چل رہی ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر، ہمارے سائنس دان اور ہمارے انجینئر اپنی صلاحیتوں کا سکّہ جما چکے ہیں، چنانچہ ہمارے قلم کاروں کو ہر آن محرومیوں کا ذکر کرنے کے بجائے اُن آسانیوں اور نعمتوں کا تذکرہ احساسِ شکر کیساتھ کرتے رہنا چاہئے جو ہمیں آزادی کے عہد میں دستیاب ہیں۔ ہم آج فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ عالمی امن کے قیام میں پاکستان کا حصّہ قابلِ قدر ہے کہ اِس کے شہری بہادری، جفاکشی اور اِیثار میں اپنا کوئی جواب نہیں رکھتے۔ پس ہمیں اربابِ اختیار کو آئین اور قانون کا پابند بنانا ہے اور شہریوں کو نظم کا پابند کرنا ہے۔