• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے گزشتہ مقالے میںقارئین کی آگاہی کے لئے چند مثالیں پیش کی تھیں کہ کس طرح سائنس کی بدولت جدت طرازی ملک و ملت کی معیشت کو تبدیل کرکے ترقی کا سبب بن رہی ہے۔وہ ممالک جو ان شعبوں پر وسیع پیمانے پرسرمایہ کاری کررہے ہیں وہی ممالک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل رہے ہیں اور یہ بات طے ہے کہ اعلیٰ و معیاری جامعات اور تحقیقی ادارے ہی مضبوط علم پر مبنی معیشت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تازہ ترین QS درجہ بندی کے مطابق پاکستان کا درجہ اس وقت عالمی درجہ بندی میں نچلے مقام پرہے ۔ ٹائمز اعلیٰ تعلیمی درجہ بندی کے مطابق اسوقت ہماری ایک بھی جامعہ کا شمار دنیا کی چوٹی کی 500 جامعات میں نہیں ہوتا۔ یہ وہی شعبہ ہے جس نے 2003ء سے 2008 ء کے دوران شاندار ترقی کا مظا ہرہ کیا جس کا اعتراف کئی بین الاقوامی اداروں نے بھی کیا جن میں عالمی بینک کی کئی آزاد بین الاقوامی رپورٹیں، USAID، برٹش کونسل اور سابق چیئر مینUNCSTD، کے بیانات شامل ہیں۔پھر ایسا کیا طوفان آیا کہ یہ سب ترقی ملیا میٹ ہو گئی؟
یہ سمجھنے کے لئے اس ادارے کے قیام سے اب تک کاجائزہ لیتے ہیں۔ اکتوبر 2002ء میں پاکستان نے ایک مضبوط و وسیع النظر علمی معیشت کے قیام کا آغاز اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام سے کیا اور مجھے اسکا بانی چیئر مین مقرر کیا گیا۔ اس وقت ہماری کسی بھی جامعہ کا شمار دنیا کی چوٹی کی 500 جامعات میں نہیں ہوتا تھا۔چھ سال کی مختصر مدّت میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے شاندار پیش رفت کی جس نے جامعات کی حالت یکسربدل دی جسکی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔اکتوبر 2008ء میں جس وقت میں نے احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا (کیونکہ پی ایچ ڈی ڈگری کے لئے بیرون ملک تعلیم کے لئے بھیجے گئے طلبا ء کے وظائف پی پی پی کی حکومت نے روک دئیے تھے) اس وقت پاکستان کی کئی جامعات عالمی درجہ بندی کے مطابق دنیا کی چو ٹی کی ،225، 300، 400، اور 500 جامعات میں تھیں ان میں قدرتی سائنسز کی درجہ بندی میں جامعہ کراچی 223پر تھی، NUST 250 پر، اور UET (لاہور) 281نمبرپر تھیں، جبکہ NUSTکا مجموعی درجہ عام جامعاتی شمارے میں370 پرتھا ۔ حتیٰ کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اسقدر شاندار کامیابی نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجادی تھیں اور اس حوالے سے 22جولائی 2006ء کو بھارتی وزیراعظم کو تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی تھی۔جو 23جولائی 2006ء کوہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئی تھی۔
2008 ء سے 2013ء کے دوران جب پی پی پی نے اقتدار سنبھالا تھا دنیا کے معروف ترین سائنس کے جریدے ’’نیچر‘‘ نے پی پی پی کی حکومت کو اعلی ٰ تعلیمی شعبے کی متوقع صورتحال کی جانب 28اگست 2008ء میں ہی ایک ادارئیے کے ذریعے خبردار کیا تھا اس ادارئیے کی سرخی تھی ’’مشرف کے بعد‘‘ اور مضمون کا اقتباس یہ ہے’’پیپلز پارٹی کی حکومت کو ا ب بھی کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کی منتخب کردہ حکومتوں میں پی پی پی کا گزشتہ ریکارڈ سائنس کے میدان میںسب سے زیادہ غیر سنجیدہ رہا ہے۔مشرف سے پہلے کا دور اگر واپس آگیا تو پاکستان دوبارہ پتھروں کے زمانے میں چلاجائے گا۔ نئی حکومت کو جنرل مشرف سے اپنی تمام نا اتفاقیوں اور ناپسندیدگی کے باوجود یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جنرل مشرف نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہم بنیاد رکھی ہے جس پر شاندار مستقبل کی تعمیر ہوسکتی ہے‘‘
افسوس کہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے نے جس قدر ترقی کی تھی 2008 ء سے 2013ء کے دوران بجٹ کی مستقل کٹوتی کی وجہ سے اور حکومت کی علم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اعلی تعلیم تباہ ہوگئی۔ جعلی ڈگریوں کے حامل پارلیمانی اراکین ایچ ای سی کے خون کے پیاسے بن گئے جب ایچ ای سی نے ان کی جعلی ڈگریوںکو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ پی پی پی کی حکومت نے جن حضرت کو وفاقی وزیر تعلیم تعینات کیاتھا وہ بھی جعلی ڈگری کے حامل تھے۔ ان جعلی ڈگری کے حامل اراکین کی مسلسل دشمنی کی وجہ سے حکومت نے ایچ ای سی کی تحلیل کا اطلاع نامہ جاری کیا تاکہ اسے ٹکڑے کرکے تمام صوبوں کے حوالے کردیا جائے۔پاکستان میں بیک وقت تین اعلیٰ تعلیمی کمیشن ، ایک وفاقی اور دو صوبائی (سندھ اور پنجاب)کمیشن کے قیام سے اعلیٰ تعلیم کے معاملات نہایت درہم برہم ہیں کیونکہ کسی کو کچھ نہیں پتہ کس کی ذمہ داری کونسی ہے۔ اسکے نتیجے میں پورا اعلیٰ تعلیم کا شعبہ تباہ ہو رہا ہے اور ایک ہولناک صورتحال ہے کہ کون کس کا حکم مانے۔بے شک موجودہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا ہے لیکن یہ اب بھی دیگر ممالک کی اچھی جامعات، جیسا کہ سنگاپور، کوریا اور ہانگ کانگ کی جامعات کے فنڈز کے مقابلے میں نہایت قلیل ہے اور صرف3% ہے۔ پاکستان کی اچھی جامعات مثلاً قائداعظم جامعہ (QAU) ، نسٹ اور کامسیٹس کا سالانہ بجٹ 3سے 5 ارب روپیہ ہے جبکہ قومی جامعہ سنگاپور کا بجٹ180ارب روپے سالانہ ہے ۔
اس صورتحال کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔ ہم 2003ء سے 2008ء کے شاندار ترقی کے د ور کو جاری رکھنے میں بری طرح ناکا م ہوگئے ہیں۔ موجودہ ایچ ای سی کے چیئرمین جناب مختار احمد کی کاوشیں اس صورتحال میں قابل ستائش ہیں اور ہماری حکومت کو ایچ ای سی کی بھر پور مدد کرنی چاہئے۔ حکومت کو صوبائی ایچ ای سی فوری بند کردینی چاہئیں اوراسکول ، کالج اور جامعات کی مضبو طی کے لئے فنڈز میں3گنا اضافہ کرنا چاہئے جیساکہ ان کے منشور میں ہے اور ساتھ ہی وفاقی ایچ ای سی کے فنڈز کو تین گنا بڑھا دینا چاہئے تاکہ ہم علم پر مبنی معیشت کی جانب تیزی سے منتقل ہو سکیں۔ پاکستان کو تعلیم عام کرنے کا سب سے بڑا چیلنج اسکول، کالج اور جامعہ میں مخصوص مضا مین کی تعلیم کے لئے اچھے اساتذہ کی کمی ہے اور اساتذہ کو اپنے مضمون کی مکمل سمجھ بوجھ اور بھر پور عبور حاصل نہیںہے۔سنگاپور میں تمام اسکول اساتذہ کے لئے کم از کم اے ۔لیول (لندن / کیمبرج) کا امتحان پا س کرنا لازمی ہے، ہمیں بھی اپنے ملک میں ایسا ہی کچھ کرنا چاہئے۔ اچھے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اساتذہ کے تربیتی پروگراموں میں بلامعاوضہ آن لائن کورسز شامل کرنے چاہئیں یہ معیاری ویڈیو لیکچرز دنیا کے اعلیٰ ، معیاری اسکولوں ،کالجوں اور جامعات کے ماہر ین کی جانب سے نیٹ پر موجود ہیں ۔ اس قسم کے لیکچرز مستقبل میں پڑھانے کے طریقے اور جماعت کی صورتحال کو یکسر بدل دیں گے۔
MIT Open Course Ware (MIT OCW) کا منصوبہ میساچسیٹس ادارہ برائے ٹیکنالوجی (MIT) نے اپریل2001ء میں شروع کیا تھا۔ اس کے ذریعے انہوں نے اسکو ل اور گریجویٹ کی سطح کا تعلیمی مواد تیار کرکے آن لائن جاری کردیا۔ اسی طرح اسٹین فورڈ، پرنسٹن، مچیگن اور دیگر جامعات نے بھی اپنے کورسز آن لائن جاری کئے مگر ان میں سے بیشتر معاوضے کی صورت میں حاصل کئے جاسکتے تھے۔ ان میں کئی اہم کورسز یوڈیسٹی، کورسیرا اور فیوچر لرن بھی شامل تھے۔ دسمبر 2013ء میں ہم نے ان میں سے بیشتر اداروں سے جن میں ایم آئی ٹی، (Yale)، اسٹینفورڈ ، کیلیفورنیا خان اکیڈمی اور دیگر ادارے شامل ہیں ا ن سے اجازت لے کر بین الاقوامی ادارہ برائے کیمیائی وحیاتیاتی سائنسز ، جامعہ کراچی میں ان تمام کورسز کے مجموعے ،جس میں اسکولوں ، کالجوں اور جامعات کی سطح کے تمام کورسز شامل کئے گئے تھے ان کے لئے ایک علیحدہ ویب سائٹ Integrated Massive Open Online Courses) iMOOCs ( کی تشکیل دی جس کا افتتاح اسلا می جمہوریہ پاکستان کے صدر نے دسمبر 2013 ء میں کیا۔ یہ ویب سائٹ بہت وسیع علمی خزانہ ہے جو سب کے لئے بلا معاوضہ دستیاب ہے۔ اس ویب سائٹ کا پتہ یہ ہے www.lej4learning.com.pk پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی شعبہ اب بھی سنبھل سکتا ہے ،اگر حکومت بھرپور سا تھ دے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے،ملک بھر میں قومی تعلیمی ہنگامی حالت نافذ کی جائے ۔ دوسرے شعبوں کے بجٹ سے کٹوتی کرکے اسکول ، کالج، اور جامعات کیلئے بجٹ مختص کئے جائیں اور انتظامی امور میں ا صلاحات کی جائیں تاکہ پاکستان بھی کوریا سنگاپور اور ملائیشیاء کی طرح ایک علم پر مبنی معیشت قائم کر سکے۔
تصحیح
قارئین سے معذرت کے ساتھ گزشتہ مقالے میں شمسی بجلی گھروں کے نرخ کے متعلق چھپے ایک لفظ ’’10پیسہ ‘‘کی جگہ’’ 10روپیہ‘‘ کی تصحیح کی جاتی ہے ۔صحیح سطر کچھ یوں ہے ’’ ٹی وی کی رپورٹوں کے مطابق چولستان کے صحرا میں لگنے والے 100میگا واٹ کے چینی شمسی گھر سے 10 روپیہ فی کلو واٹ گھنٹہ کے نرخ پر بجلی فراہم کی جارہی ہے ‘‘۔
تازہ ترین