اللّٰہ تعالیٰ میاں محمد نواز شریف کو صحت مند اور طویل زندگی عطا فرمائے، آمین۔ دل سے یہ دعا اس لیے نکلی ہے کہ میاں صاحب کے بارے لکھتے ہوئے طے نہیں ہو پا رہا کہ ’صیغہ‘ کون سا استعمال کرنا ہے، مثلاً، نواز شریف اپنی پارٹی کا ہر فیصلہ خود کرتے ’ہیں‘ یا کرتے ’تھے‘، کابینہ کا ہر وزیر ان کا اپنا انتخاب ہوتا ’ہے‘ یا ہوتا ’تھا‘، وہ پاکستان کے سب سے کامیاب سیاست دان ’ہیں‘ یا ’تھے‘، میاں تیرے جاں نثار، بے شمار، بے شمار ’ہیں‘ یا ’تھے‘، قدم بڑھائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ’ہیں‘ یا ’تھے‘؟
انتخابات کے بعد نواز شریف طویل غیاب کے بعد کچھ دن پہلے پنجاب حکومت کے ایک اجلاس میں ظہور پذیر ہوئے، ان کے سیاسی مخالفین اس پر معترض ہوئے اور عدالت جا پہنچے، وہاںجواب ملا کہ اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے،ایسے اجلاسوں میں کسی کو بھی شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہے۔ ایک آدھ مرتبہ تبرکاً تو ٹھیک ہے لیکن بہرحال یہ توقع کوئی بھی نہیں رکھتا کہ نواز شریف ایسے حکومتی اجلاسوں میں اکثر آتے جاتے رہیں گے۔تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والا نواز شریف پنجاب میں بہ طور ’ابو جی‘ بھی اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتا تو پھر وہ کیا کرے؟ وفاقی حکومت بھی نواز شریف کے فراق میں بے حال نظر نہیں آتی، نہ اس کے کسی معاملے میں میاں صاحب کا کوئی عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔اور جہاں تک میاں صاحب کی پارٹی مسلم لیگ نون کا تعلق ہے تو وہ تو کب کی نون غنہ ہو چکی ہے، اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ نون غنہ میں نون ساکن ہو جاتا ہے۔
اس سال میاں صاحب عمرے پر بھی نہیں گئے، یعنی عبادت میں بھی دل نہیں لگا سکے،تو صورتِ احوال یہ ہے کہ نہ سیاست نہ قیادت نہ عبادت، یہ ایک پریشان کُن منظر ہے، اس عمر میں اگر کوئی مثبت معمولات نہ ہوں تو اس سے ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے، سو طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ڈپریشن کا اندیشہ ہوتا ہے، ڈیمنشیا کا خطرہ ہوتا ہے، جب کہ میاں صاحب تو پہلے ہی صحت کے کئی سنجیدہ معاملات سے نبرد آزما ہیں۔لہٰذا غور طلب نکتہ یہ ہے کہ میاں صاحب اب کیا کریں؟ کوئی مصروفیت تو ہونا ہی چاہیے۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیشِ خدمت ہیں جو کہ دراصل ’اشغال بعد از ریٹائرمنٹ‘ سرچ کرنے پر گوگل کی عنایت ہیں۔
باغبانی:طبیب متفق ہیں کہ باغبانی سٹریس اور انزائٹی سے رہائی دیتی ہے، انتہائی سکون آور شغل ہے اور ورزش کی ورزش۔ میاں صاحب کو پھل بھی پسند ہیں اور پھول بھی، تو بس بھر بھر مشکیں ڈالیں اور اگاتے چلے جائیں۔جب ان کا لگایا ہوا بیج درخت بن کر پھل دے گا تو انہیں انتہائی طمانیت کا احساس ہو گا، وہی طمانیت جو آج انہیں اپنی بنائی موٹر ویز دیکھ کر ہوتی ہو گی۔بس ایک احتیاط لازم ہے، جب شاخیں ثمر سے بوجھل ہو جائیںتو زاغ و زغن ان کے نزدیک نہ آنے پائیں، یعنی کوئی ثاقب و باجوہ چمن میں پر نہ مار سکے۔
گالف:اکثر کھیلیںذہنی و جسمانی آسودگی کا باعث بنتی ہیں، لیکن ایک خاص عمر کے بعد گالف کھیلنے سے کئی فائدے سمیٹے جا سکتے ہیں، یہ کھیل بلڈ پریشر اور عارضہء قلب کے مریضوں کے لیے خصوصی طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔گالف سے معمر لوگوں میں ڈس اورنٹیشن کی کیفیت بھی دور ہو جاتی ہے۔ویسے ہمارے ملک میں یہ کھیل جرنیلوں میں بہت مقبول ہے، غالباً اس لیے کہ گالف کھیلنے کے لیے ایک وسیع سبزہ زار کی ضرورت ہوتی ہے،یاد رہے کہ میاں صاحب کے تعینات کردہ اکثر چیف یہ کھیل بھی کھیلا کرتے تھے۔
سیاحت:ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں، نئے منظر، نئے لوگ، نئی منزلیں۔ وزیرِ اعظم ہائوس، جیل اور جلا وطنی سے ہٹ کر بھی ایک دنیا آباد ہے، میاں صاحب کو اردو والا ’سفر‘ بھی کر کے دیکھنا چاہیے، میاں صاحب، اب آپ دنیا دیکھیں، دنیا نے تو آپ کو دیکھ رکھا ہے، ایٹمی دھماکوں کے موقع پر امریکانے آپ کو اچھی طرح دیکھ لیا تھا، یمن میں فوج بھیجنے سے انکار پر عربوں نے بھی آپ کو دیکھ لیا تھا، واجپائی اور مودی جب لاہور آئے تھے تو دنیا نے آپ کو بہت غور سے دیکھا تھا، اب آپ کی باری ہے، سفر کیجیے، دنیا دیکھیے۔ پیچھے کی فکر نہ کیجیے گا، پنجاب حکومت کا اللّٰہ ’حافظ‘ ہے۔
مطالعہ:کتاب پڑھنے سے بہتر کوئی شغل ممکن ہی نہیں، مطالعے سے اضطراب اوربے چینی دور ہوتی ہے، مزاج ہم وار ہوتا ہے، اور طبیعت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کی گونا گوں مصروفیات نے زندگی بھر انہیں اکثر کامیاب سیاست دانوں کی طرح اس شغلِ کار آمد کاوافرموقع نہیں دیا، میاں صاحب کے جو سیاسی حریف ہیں (یا تھے؟) ان کے بارے تو کہا جاتا ہے ان کی کتاب سے دوری کا یہ عالم ہے کہ وہ چیک بُک بھی اپنی استعمال نہیں کرتے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے اشغال میاں صاحب کو مصروف رکھ سکتے ہیں، میاں صاحب کُتّا پال سکتے ہیں جو کہ انسانوں سے زیادہ وفادارجانور ہے، میاں صاحب بانسری بجانا سیکھ سکتے ہیں اور اب انہیں کوئی نیرو ہونے کا طعنہ بھی نہیں دے سکتا، میاں صاحب تاش کا شغل بھی اپنا سکتے ہیں کہ اب انہیں رنگ کھیلنے کے لیے خواجہ سعد رفیق، رانا ثنااللّٰہ اور جاویدلطیف، جیسے پارٹنر بھی میسر ہیں۔امید ہے کم از کم تاش میں میاں صاحب شارپرز سے محفوظ رہیں گے۔
سیدھی بات ہے، نواز شریف کے نام پر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا Scam کیا گیا ہے اور ان کے بے شمار حامی اب بھی ہکا بکا ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں یعنی ’’یہ کیا ہوا‘‘۔جب تک نواز شریف کے حامی اس سوال کا کوئی موزوں جواب تلاش کرتے ہیں، ہم نے سوچا کچھ تجاویز پیش کر دی جائیں تاکہ فی الحال تو میاں صاحب کسی آرے لگیں۔