• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں بجلی چوری ایک معمول کی کارروائی بن کر رہ گئی ہے اور جب برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ۔ کبھی اسے فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا جاتا ہے تو کبھی لائن لا سزکا۔ بجلی کمپنیوں کے نقصانات اور کم ریکوریز کی شکل میں مبینہ طور پر اوور بلنگ ہوتی ہے۔ بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار اور چھپے اخراجات الگ سے اضافی بوجھ ہیں۔ گردشی قرضہ ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں ہر سال 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ برسہابرس سے اس کے کھلے دروازے ہماری بدانتظامی کی گواہی دے رہے ہیں۔ بجلی چوروں میں مبینہ طور پر سیاستدانوں ، صنعتکاروں ، تاجروں، کاروباری اداروں، عام صارفین اور بعض بدعنوان افسران اور اہلکاروں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے ہوش ربا انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ وقتاً فوقتاً بجلی چوروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون کی خبریں بھی آتی ہیں۔ معاملہ ایوانوں میں بھی پہنچتا ہے لیکن اس سنگین مسئلے پر آج تک قابو نہیں پایا جا سکا اور بالآخر خمیازہ صارفین کو اضافی بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے جو ظلم کے مترادف ہے۔ حال ہی میں گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) کے بیس افسران کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور بلوں کی رقم قومی خزانے کے بجائے ان کی جیبوں میں جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر دس کروڑ پچاس لاکھ روپے کی رقم سامنے آئی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزمان صارفین کی طرف سے بجلی کے بلوں کی مد میں جمع کرائی گئی رقم کی خزانے میں جعلی انٹری کرتے اور اسے اپنی جیبوں میں ڈال لیتے تھے جبکہ گیپکو کا موقف ہےکہ ایف آئی اے ایک کروڑ کی نادہندہ ہے اور اس کی بجلی کاٹ دی گئی ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے اوور بلنگ میں ملوث عملے کے خلاف ایکشن اور ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت جو معیشت کی بحالی کیلئے کمر بستہ ہے کے اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہونگے۔

تازہ ترین