• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
ایران کی جانب سے گزشتہ ہفتے اسرائیل پر تین سو ڈرون اور میزائلوں سے حملے کو کئی حلقے اس طرح دیکھ رہے ہیں گویا مسلم دنیا نے کوئی کروٹ لے لی ہے اور اب اسرائیل اور اس کے امریکہ اور یورپ جیسے حمایتیوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے اور اب اسرائیل کو جنگ بندی بھی کرناپڑے گی اور غزہ اور فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حملہ ایران نے خود پر حملے کی جوابی کاروائی میں کیا جس میں اسرائیل کا جانی نہ مالی کوئی نقصان نہیں ہوا سوائے ان ایک دن کے ڈرون اور میزائلوں کو روکنے کا جو بڑا بل امریکہ اور برطانیہ اور فرانس کو ادا کیا جنہوں نے فوری طور پر اسرائیل میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ان ڈرون کو ناکارہ بنا دیا۔ واشنگٹن پوسٹ میں پوری رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ ایران نے امریکہ کو نہ صرف پہلے سے اس حملے سے آگاہ کر رکھا تھا بلکہ اس کی شدت اور ہیئت کے بارے میں بھی امریکہ کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ جس نوعیت کے ڈرون چھوڑے جا رہے ہیں انہیں ایران سے اسرائیل کی سرزمین تک پہنچنے میں پانچ سے چھ گھنٹے درکار ہیں جس کی وجہ سے انہیں اسرائیل تک پہنچنے سے پہلے راستے میں تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اب یورپ اور امریکہ جنگ کے پھیلاؤ سے دنیا کو ڈرا کے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ غزہ، اسرائیل جنگ کو محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ دراصل اسلحہ ساز کمپنیاں خوب مال بنا رہی ہیں اس پر آئندہ کسی کالم میں تفصیل سے لکھوں گا۔ البتہ ایران کی صورتحال کو دیکھیں تو جس طرح کے انسانی حقوق کی صورتحال ایران میں ہے اور وہاں جس قسم کا عوام کی زندگیوں پر انقلابی گارڈ اور ملاؤں کا کنٹرول ہے اور جس طرح سے وہاں خواتین بچوں اور عوام کی زندگی کو تلوار کی نوک پر رکھا گیا ہے اس میں اور صیہونی طرز توسیع پسندی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے (FFM) Fact Finding Mission کی رپورٹوں کے تحت گزشتہ دو برسوں میں جس بڑے پیمانے پر حقوق انسانی کی دھجیاں بکھر رہی ہیں اس کا کسی اور ملک اور سوسائٹی سے تقابل ممکن نہیں ۔ مجموعی طور پر کہا جاتا ہے اپنی تعلیمات کے حوالے سے دوسرے اسلامی مسالک کے مقابلے میں زندگی اور سماج پر لبرل رویہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایران کو دیکھ کے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پرانے سعودی عرب کی طرح ایران تاحال عورتوں اور بچوں کی جانب بہت تنگ نظر اپروچ رکھتا ہے۔ پورے اسلام کی تان لڑکیوں اور عورتوں پر پابندیاں لگانے پر ٹوٹ جاتی ہے۔ لڑکیوں کو ملازمت کرنے، باہر میک اپ کرکے نکلنے، اپنا جیون ساتھی کا انتخاب کرنے، لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنے، بیرون ملک سفر کرنے جیسے تمام شعبوں میں ریاستی کنٹرول اتنا زیادہ ہے کہ عورتوں کو ان ایریا میں شدید جبر کا سامنا ہے۔ سب سے بڑھ کر جب کوئی خواتین ان پابندیوں کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنا چاہیں تو ان پر خوفناک طرز تشدد کیا جاتا ہے اور جہاں ذرا زیادہ احتجاج ہو تو ان پر گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں۔ ایک ایسا جاری و ساری تشدد ہے جیسا کہ شاہ ایران رضا پہلوی کے زمانے میں خمینی اور اسکے اتحادیوں پر شاہ ایران کی ظالم ایجنسی ساوک کی جانب سے کئے جاتے تھے۔ صرف ایک ہی احتجاجی تحریک کے دوران FFM کے مطابق 500 لوگ مارے گئے جن میں خاصی تعداد 20 سال سے کم عمر بچوں کی تھی۔ اب ایسی حکومت اگر آج اسرائیل کے مظالم کے خلاف ہے تو پھر تو اسے ہر وقت اسرائیل کو نشانہ بنانا چاہئے۔ لیکن گزشتہ چھ ماہ میں غزہ میں نسل کشی پر ایران نے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا حتیٰ کہ خود براہ راست اس پر اسرائیل نے دمشق میں حملہ کیا۔ اب توتمام نام نہاد مسلم امہ کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا ہے جو اپنے مسلم ہوڈ کا ذکر فقط اپنے مفادات کے لئے کرتےہیں۔ مجھے مفادات کے تحفظ پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن دنیا کو مسلم امہ کا ورد کرکے بے وقوف نہ بنائیں۔
یورپ سے سے مزید