روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن پاکستان کی ریاست کے لئے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ، دہشت گردی یا عمران خان یا پھر معیشت یا پھر تینوں ایک دوسرے سے بڑے ایشوز ہیں۔ تینوں ایشوز میں سے دو کی جڑیں تو جسے کہتے ہیں کھوجی کی پیڈ تو اسٹبلشمنٹ کی طرف جاتی بتائی جاتی ہیں جبکہ معیشت کچھ ناقص ترین منصوبہ بندی اور کچھ لوٹ کھوسٹ کی نذر ہو چکی ہے ۔ بات اگر دہشت گردی سے شروع کریں تو کم از کم ہمیں 1980 کی دہائی میں جانا پڑتا ہے جب ایک طالع آزما نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے کا اعلان کیا اور مال بھی خوب بنایا اور انتہاپسندی اور جہادی ازم بھی خوب بیچا۔ اپنے ہی ملک میں جہاد کے نام پر تشدد پسندی کے اڈے بنائے ، معصوم بچوں کے برین واش کئے، مدرسوں کی تعمیر و ترقی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، برین واشنگ کے لئے نوجوان نسل کے تعلیمی نصاب تبدیل کئے۔ مذہب کا ایسا جھرلو پھیرا کہ اداروں کو اپنے ریاستی امور نبٹانے کی بجائے آخرت سنوارنے پر لگا دیا ۔ پہلے افغانستان سے خوب محبت دکھائی ، امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنی اور افغانوں کی نوجوان نسل کو مجاہدین بنا ڈالا۔ سائنس پڑھانے کی بجائے جہاد پر لگا دیا پھر اس اچھے برے طالبان کی تفریق میں افغانستان سے نگاہیں پھیر لیں اور انہیں اپنا دشمن نمبر 1 بنا لیا۔ پنتالیس سال سے پاکستان میں بسائے مہاجرین کو اب چار دہائیوں کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والی تین نسلوں کو افغانستان واپس دھکیلنا شروع کردیا جس سے اب ان مذہبی انتہا پسند مجاہدین جو کہ اب دہشت گردی کے زمرے میں آچکے ہیں انہیں مکمل طور پر ریاست پاکستان کا دشمن بنا لیا ہے اور آپریشنز کا ایک سلسلہ جاری کیا جیسے ردالفساد، ضرب عزم اور اب عزم استحکام ۔ ان تمام آپریشنز نے شمالی علاقہ جات سے لیکر افغانستان تک کی مقامی آبادی کی زندگی اجیرن کر ڈالی ۔ اب بنوں میں امن کی خاطر دھرنے اور مظاہروں کے لئے لاکھوں کی تعداد میں نکلنے والوں پر گولیاں چلا ڈالیں پھر دہشت گردی تو سب سے بڑا ایشو رہے گا ہی اور سیکورٹی ایجنسیوں پر حملے روکنا مشکل ہوتا جائے گا۔ یہ ایک سارا mishandling کا مسئلہ ہے اوربیچ میں اپنے Assets قائم کرنے کا ایشو ہے ۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کے بحرانوں کا میرے خیال میں نمبر 1 مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ کم اہمیت کا ایشو بھی نہیں ہے۔ اب آجائیں معیشت کی طرف تو معیشت بھی کئی دہائیوں سے بگڑا ہوا مرض ہے ۔ جس سے استعفادہ کرنے والوں کی ایک مٹھی بھر کلاس ہے جسے دیکھتے ہوئے یوںلگتا ہے کہ گویا یہ ملک دراصل بنا ہی ان کے لئے ہے یا پھر انہوں نے بنایا ہی اپنے لئے تھا جس میں چوبیس کروڑ عوام تو لگتا ہے غلطی سے ہی آگئے یا غلط امیدیں وابستہ کرکے آگئے۔ یوں لگتا ہے اس ملک میں اگر انہوں نے رہنا ہے تو بس اسی کسمپرسی میں ہی رہنا ہوگا اور صبروشکر سے رہنا ہوگا۔ یہاں عوام کے لئے نہ تو کوئی پالیسی بنتی ہے نہ قانون اور نہ ہی انصاف بلکہ عوام کے جم غفیر نے اپنے لہو سے اس مٹھی بھر کلاس کی زندگی کی عیاشیوں کو چلانا ہے۔ اس لئے معیشت بھی مجھے کوئی بڑا مسئلہ نہیں لگتا کیونکہ یہاں بھی مسئلہ نیت کا ہی ہے۔ پورا مائنڈ سیٹ ہی انٹی پیپل ہے تو پھر بہتری ممکن نہیں۔ اس لئے یہ بھی نمبر 1 مسئلہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جس طرح گزشتہ دہائیوں میں مخصوص برین واشنگ کی گئی تھی اسی طرح عمران خان کے پیچھے بھی ایک برین واشڈ ہجوم ہے۔ اسے بھی دراصل اسی ریاست نے آبیاری کرکے یہاں تک پہنچایا ہے اب تو اسکے پیچھے ساٹھ ستر فیصد لوگ کھڑے ہیں لیکن وہ پھر بھی اسی عطار کے لونڈے سے یعنی اسٹبلشمنٹ سے ہی دوا لینا چاہتا ہے۔ مارے بھی جاتا ہے اور روئے بھی جاتا ہے ۔ میں تو کہتا ہوں اگر اکثریت اسکے ساتھ ہے تو مٹھی بھر اقلیت کا کیا کام ہے کہ وہ اکثریت کے سامنے سرتسلیم خم نہکرے۔ ان مٹھی بھر کے خیال میں اگر عمران کے ہاتھ سب دے دیا تو ملک تباہ ہو جائے گا۔ میں تو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ اگر اکثریت یہی چاہتی ہے تو ہونے دیں۔ یہ ملک لوگوں سے ہے اورکچھ بھی اکثریت کا مائنڈ سیٹ ہو وہ جسے چاہتے ہیں اسے منتخب کریں اور پھر اقلیت کا کوئی کام نہیں کہ وہ اکثریت پر مسلط ہو۔ لوگوں کو تجربے سے گزرنے دینا چاہئے، اسطح جیسے اس وقت ملک چل رہا ہے اس میں تو سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ لیکن لگتا ہے ریاست کا مسئلہ اس وقت یعنی مسئلہ نمبر 1 صرف اور صرف عمران خان ہے جو گلے میں پھنس گیا ہے۔