پاکستان اِن دنوں اپنی اقتصادی تاریخ کےبہت بُرے دورسے گزررہا ہے۔لہذا عوام کے لیے دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنا بھی بہت مشکل ہوچکا ہے۔ اس پر مستژاد یہ کہ ہم پر واجب الادا قرضوں اور ان کے سُود کا بوجھ ہماری سکت سے کہیں زیادہ ہوچکا ہے۔ یہ قرضے تو کیا، ان کا سُود ادا کرنا بھی اب ہمارے لیے انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ اس صورت حال کی بہت سی وجوہات ہیں۔ دو دہائیوں میں دہشت گردی ان میں سے ایک بہت اہم وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار ی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے۔
تاہم اب فضا بدلنے کے اشارے ملنے لگے ہیں ۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب سے ایک اہم وفد پاکستان آیا اور اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی امید پیدا ہوئی۔پھر ایران کے صدر کے دورے سے بھی کچھ امید بندھی ہے۔ لیکن اسی اثنا میں کراچی میں جاپانی شہریوں کی گاڑی پر خود کش حملہ کیا گیا جو اگرچہ ناکام رہا ،لیکن اس کے ذریعے دہشت گردوں نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے اور یہاں آنے والے غیر ملکی بھی ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ہمارا دشمن یہ ہی چاہتا ہے کہ دنیا پاکستان سے کوئی واسطہ نہ رکھے۔اسے خطرہ ہے کہ سعودی عرب کی کام یاب سرمایہ کاری سے خلیج اور اس سے باہر دیگر ممالک کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔
سعودی عرب کے پاس وافر فنڈز ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے روشن مواقع موجود ہیں۔ سرمایہ کاری کی بات کئی برس سے چل رہی ہے،لیکن اب تک سرمایہ کاری نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سرمایہ کار عام طور پر اس ملک کا رخ کرتے ہیں جہاں امن و امان ، سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل پایا جاتا ہو۔ بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے پاکستان میں یہ بات ناپید رہی ہے۔
دوسرا نکتہ کسی منصوبے کو جاذب نظر بنانے کے لیے عالمی سطح کی فزیبلیٹی رپورٹ ہوتی ہے جس سے سرمایہ کار پر واضح ہو جائے کہ منصوبہ کتنا فائدہ مند ہو گا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اعلیٰ سطح کے سرمایہ کاری کے وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیاتو وفد کو مفصل بریفنگ کے علاوہ پروفیشنل معیار کی فزیبلیٹی رپورٹس بھی دی گئیں۔ وزیر اعظم نے وفد کو بتایا کہ اس مرتبہ ہم نے عالمی ماہرین کے مشورے سے فزیبلیٹی رپورٹس تیار کی ہیں۔
دراصل سعودی وفد کا یہ دورہ وزیراعظم اور ولی عہد کے درمیان مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے، جہاں سعودی عرب کے ولی عہد نے پاکستان میں جلد سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔ وفد کے دورے میں سرمایہ کاری کے لیے تین شعبے بہ طور خاص چنے گئے جو زراعت، توانائی اور معدنیات کے ہیں۔ یہ تینوں شعبے غیر ملکی سرمایہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے پاکستان کی اقتصادی نمو کی شرح بہتر ہوگی، روزگارکے نئے مواقع پیدا ہوں گے، برآمدات میں اضافہ ہوگا اور دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں نئے باب کا اضافہ ہوگا۔
ایسے میں ہمارایہ فرض ہے کہ ان منصوبوں کے لیے فول پروف سکیورٹی مہیا کریں۔ دراصل سرمایہ کار ان پرندوں کی مانند ہوتے ہیں جو فضا سے آہستہ آہستہ زمین پر اترتے ہیں لیکن بندوق کا ایک فائر ہو جائے تو اس کی آواز سن کر سہم جاتے ہیں اور آناً فاناً اڑ جاتے ہیں۔پانچ ارب ڈالر کی متوقع سعودی سرمایہ کاری دراصل ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر یہ منصوبے کام یاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری ہوگی جو25ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔اور دہشت گرد یہ ہی نہیں ہونے دینا چاہتے۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف ہمارا مسئلہ ہے۔ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2015 میں عالمی معیشت کو دہشت گردی کی وجہ سے 89 ارب 60 کروڑ کا نقصان ہوا تھاجوایک سال قبل کے مقابلے میں 15 فیصد کم تھا۔ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک اینڈ پیس نے گلوبل ٹیررازم انڈکس 2016 جاری کیا تو پتا چلا کہاس وقت دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ عراق کی معیشت کو نقصان پہنچاتھا اور یہ نقصان عراق کے جی ڈی پی کا 17 فیصد تھا۔ تحقیق کے مطابق دہشت گردی کی وجہ سے سیاحت کی صنعت بری طرح تباہ ہوئی اور اُن ممالک میں جہاں دہشت گرد حملے نہیں ہوئے وہاں سیاحت کی صنعت دگنی ہوگئی۔
اس غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق شدت پسندی کے شکار ممالک میں قیام امن کے لیے جو وسائل مختص کیے گئے اُس کا ملکی معیشت پر دوفی صد اثر پڑ رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اور بوکو حرام جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائی سے ان کے حملوں میں کمی آئی، لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں دہشت گردی کے باعث اموات کی شرح میں 650 فی صد اضافہ ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 2015 میں 29376 افراد دہشت گردی کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں میں اس سے چار گز شتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال 10فیصد کمی آئی تھی۔ دہشت گردی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں عراق، افغانستان، نائجیریا، پاکستان اور شام میں ہوئی تھیں۔
عراق میں اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور نائجیریا میں بوکو حرام کے حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی آئی تھی،لیکن ان تنظیموں نے پڑوسی ممالک میں اپنی کارروائیاں بڑھادی تھیں جس کی وجہ سے او ای سی ڈی کے رکن ممالک میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔ یاد رہے کہ آرگنایئزیشن فار اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیولپمنٹ میں زیادہ تر امریکا اور یورپ جیسے امیر ممالک شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق او ای سی ڈی میں شامل 34 میں سے 21 ممالک میں کم سے کم ایک بڑا حملہ ہواتھا جس میں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ جیسے ترکی اور فرانس میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے حملے۔یاد رہے کہ اس سے ایک برس قبل پیرس میں شدت پسندوں کے حملوں میں کم سے کم 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔غیرسرکاری تھنک ٹینک کا کہنا تھاکہ ڈنمارک، فرانس، جرمنی، سویڈن اور ترکی میں ایک سال کے دوران دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی اموات بلند ترین سطح پر تھیں۔
دنیا کے 23 ممالک میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کا ڈیٹا امریکا میں قائم ایک کنسورشیم جمع کرتا ہے۔دہشت گردی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں عراق، افغانستان، نائجیریا، پاکستان او شام میں ہوئی۔اس وقت کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں امریکا 36 ویں نمبر پر، فرانس 29 ویں، روس 30 ویں اور برطانیہ 34 ویں نمبر پرتھا۔ 2015میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سب سے مہلک تنظیم رہی اور اس نے دنیا کے 252 شہروں میں حملے کیے جن میں 3141افراد مارے گئے تھے۔ نائجیریا میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ، ہم سایہ ممالک، نائجر، چاڈ اور کیمرون میں بھی آگے بڑھ رہی تھی اور ان ممالک میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں 157 فی صد اضافہ ہوگیا تھا۔
آئیے، اس رپورٹ کے ایک برس بعد کی تصویر میں پاکستان کے اعداد وشمار دیکھتے ہیں۔
ملک بھر میں دہشت گردی کی مہمات کے زبردست اقتصادی اثرات کے ساتھ ساٹھ ہزار افراد بھی اپنی جانیں گنوا بیٹھے ۔اٹھائیس اکتوبر 2009 کو پشاور کے مینا بازار میں کار بم کے دھماکے کے بعد پاکستانی شہری اکٹھے ہوئے تھے۔ اس دھماکے میں نوے افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔ پاکستان کو 2002 سے 2016 تک دہشت گردی سے 118 بلین امریکی ڈالرز اور تقریبا ساٹھ ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اسٹیٹ بینک نے2016 میں بتایا تھا کہ دہشت گرد پاکستان کو شدید مالی نقصان پہنچا رہے ہیں جس کے بارے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خصوصی طور اپنی مالی سال کے لیے سالانہ رپورٹ میں کہاتھا کہ 2002 سے اب تک، انتہاپسندانہ تشدد سے ملک کو118.3 بلین ڈالر 12.4 (ٹریلین روپے) کا بالواسطہ اور بلاواسطہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اقتصادی نمو اور سماجی شعبے کی ترقی، دونوں کو دہشت گردی سے متعلق واقعات کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اس تحقیق میں واضح کیا گیاتھا کہ نقصانات مختلف صورتوں میں تھے جن میں کبھی نہ آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری سے لے کر تجارت میں کمی اور سرمایے کابہ راہ راست ملک سے باہر چلا جانا شامل ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پاکستان کو جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اس نے اس کے بیرونی عوامی قرضے کی سطح کو تقریبا دگنا کر دیا ۔
تاہم، پاکستانیوں کو پہنچنے والا نقصان روپوں سے زیادہ تھا۔اس وقت تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ ایس بی پی کی طرف سے جاری کردہ نقصانات کے تخمینہ سے بھی کہیں زیادہ بڑا نقصان ان ساٹھ ہزار جانوں کے نقصان اور اسکولوں، سڑکوں اور دیگر عوامی املاک کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ کوئی بھی دہشت گردی کے شکار خاندانوں کے دکھ، فاٹا سے بے گھر ہونے والی پوری آبادی کے صدمے اور بم دھماکوں میں بچ جانے والے افراد جو معذور ہو کر اپنے خاندانوں پر بوجھ بن چکے ہیں، کی قیمت نہیں لگا سکتا۔ پاکستان اور عالمی برادری کو ان لامحدود نقصانات کو دیکھنے کی ضرورت ہے جن کا سامنا ملک کو انتہاپسندی سے جنگ کے دوران کرنا پڑا ہے۔
اسی طرح 2010 کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کے باعث 05-2004ءسے 09-2008ءتک پاکستان کو2,080 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑاتھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والا اوسط نقصان 7 ارب امریکی ڈالرزسالانہ تھا۔ وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق صرف 09-2008ء میں ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 678 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
دستاویز کے مطابق یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ ملک 11 ستمبر 2001کے واقعہ کے بعد عالمی اقتصادی بحران سےبہ خیر و عافیت باہر نکل آئے گا۔ 2007ء میں پاکستان کی معیشت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور 2008ءکے اوائل میں وہ پوری طرح اس کی لپیٹ میں آ گئی۔ دسمبر 2009ء تک ملکی معیشت کا ہر شعبہ دہشت گردی سے متاثر ہو چکا تھا۔ اس بات کا ایک ثبوت ملک میں ہونے والی بہ راہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تھی۔
سرمایہ کاری بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، مالی سال 08-2007ءمیں پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری اپنے عروج پر تھی اور اس وقت ملک میں 5ارب 82 کروڑ امریکی ڈالرز کا سرمایہ آیا۔ مالی سال 10-2009ء (جولائی تا مارچ) کے ابتدائی 9 ماہ میں سرمایہ کاری کی رقم کم ہو کر 1 ارب55 کروڑ امریکی ڈالرز رہ گئی۔ وزارت خزانہ کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے والے ڈاکٹر اشفاق حسن نے بتایاتھاکہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں کسی کو بھی یہ خیال نہیں تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پاکستانی معیشت پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم بعد میں یہ خیال غلط ثابت ہوا۔
دراصل جب کبھی دہشت گر د شہروں میں عوامی مقامات پر وار کر تے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو جہاں ہلاکتیں ہوتی ہیں وہیں کاروباری سر گرمیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں، ملکی و غیر ملکی سر مایہ کاری بھی رک جاتی ہے جس سے معیشت تباہ ہو جا تی ہے ۔ دہشت گردی کا عفریت معیشت کو کھا رہا ہے۔ غیر ملکی کھلاڑی پا کستان کا رُخ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ان کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کار ی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تباہی ہوئی، جس کی وجہ سے شمال مغربی پاکستان میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، سرمایہ کاری کا ماحول غارت ہوا، ملکی پیداوار تیزی کے ساتھ پستیوں کی طرف گئی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے بیش تر حصوں میں اقتصادی سرگرمیاں جامد ہو کے رہ گئیں۔ پاکستان نے کبھی اس پیمانے کی سماجی، معاشی اور صنعتی تباہی نہیں دیکھی تھی حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب ایک بہ راہ راست جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔
پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی‘ معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتا رہے گا۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیاہے۔ کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، نئی صنعت لگ نہیں رہی، پرانی فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ سیاحت تباہ ہو گئی ہے،قومی اور معاشرتی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ،ملک ترقی معکوس کی طرف گام زن ہوا۔
پاکستان نے دہشت گردوں کے ہاتھوں 2014 تک دہشت گردوں کے ہاتھوں 54000قیمتی جانوں کا نقصان اٹھایا اور ہماری معیشت کو 86 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں و بربادیاں لے کر آئی ۔ کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہرصبح طلوع ہونے والا سورج ان کے لیے امید کی کرن لاتا ہے یا نہیں، معلوم نہیں۔
اب آئیے رواں برس کی جانب۔اس برس کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ معیشت کی فروغ میں نجی شعبے کی شراکت مالی سال 2023 کے مقابلے میں کم ہوگئی جس سے منفی نمو دیکھنے میں آئی ہے۔اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ نجی شعبے کا بینکنگ سسٹم پر اعتماد ختم ہو گیا ہے کیوں کہ وہ مالی سال 2024 کے پہلے 9 مہینوں میں مشکل سے 35 ارب روپے کا قرضہ لے سکا جبکہ مالی سال 2023 کی اسی مدت میں یہ رقم 264 ارب روپے تھی۔
گزشتہ سال کی منفی اقتصادی ترقی سے پہلے، نجی شعبے نے مالی سال 2022 میں ایک ہزار 330 ارب روپے تک کا قرضہ لیا تھا، اُس سال جی ڈی پی میں چھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اس کے بعد سے سیاسی بے یقینی نے پوری معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کاروبار کے لیے مزید غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی۔
پاکستان گزشتہ سال جون کے آخر میں ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، لیکن آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے نے ایسا ہونے سے بچا لیا۔نجی شعبے کی طرف سے کم قرض لینے کی ایک اور وجہ ریکارڈ بلند شرح سود تھی۔اسٹیٹ بینک نے اب تک پورے مالی سال 2024 کے دوران پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھا جبکہ تجارت اور صنعت کے نمائندے گھریلو اور برآمدی مصنوعات دونوں کے لیے کاروبار کرنے کی لاگت کو قابل عمل بنانے کے لیے شرح میں 50 فیصد کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق منہگائی دیر سے کم ہو رہی ہے اور گزشتہ ماہ یہ پالیسی ریٹ سے نیچے تھی، تاہم 9 ماہ کی اوسط اب بھی 27 فی صدکے آس پاس ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نجی شعبے کی مدد کے لیے شرح میں کمی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بینکوں نے 2023 میں صرف خطرے سے پاک سرکاری کاغذات میں سرمایہ کاری کے ذریعے زبردست منافع کمایا۔ بڑے پیمانے پر سرکاری قرضے نے ملک کے بینکنگ سیکٹر کا منظر بدل دیا ہے، کیوں کہ بینک اب پرائیویٹ سیکٹر کو قرض دینے میں کم سے کم دل چسپی رکھتے ہیں۔روایتی بینکوں نے رواں مالی سال کے جولائی تا مارچ کی مدت میں 57 ارب روپےکے قرضے دیے جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 270 ارب روپے کا قرضہ دیا گیا تھا۔
آج سی پیک کے منصوبے ہمارے لیے بہت اہمیت اختیار کرچکے ہیں اوریہ بات دہشت گرد بہ خوبی جانتے ہیں چناں چہ وہ اسے نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت چین نے 2015 اور 2030 کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنی ہےجس میں پاکستان کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانے، ریلوے میں انقلابی تبدیلی لانا، شمالی اور جنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنا اور بیجنگ کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانا شامل ہے۔
اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی کی کمی کو پورا کرنا بھی شامل ہے اور مختلف صنعتی زون بھی قائم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2015 سے 2018 تک تقریباً 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی اور 2018 سے 2020 کے درمیان پانچ ارب ڈالرز کی اضافی سرمایہ کاری بھی کی گئی۔ اس بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا اور ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم ہوئے۔ یہ تعاون اور بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام تھا۔
اس بڑھتے ہوئے تعاون کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ سی پیک کے ذریعے چین کو خلیجی اور مشرقی افریقا کے ممالک تک پہنچنے کے لیے انتہائی کم مسافت والا راستہ مل گیا۔ پاکستان کے لیے گوادر خطے کی ایک بڑی تجارتی بندرگاہ بن رہی تھی اور پاکستان شمال اور جنوب کے لیے تجارت اور توانائی کا ایک اہم کوریڈور بننے جا رہا تھا۔یہ سب بعض ممالک کے مفادات کے خلاف تھا اور اپنی ناپسندیدگی ان کے ترجمانوں نے کافی مواقع پر ظاہربھی کی۔
ان کے خیال میں سی پیک ان کے ایشیا اور چین کے بارے میں منصوبوں میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔اس لیے ان ممالک نے مل کر سی پیک کو ناکام بنانے کے مختلف منصوبوں پر کام شروع کر دیاتھا۔ان کا ابتدائی حملہ سی پیک کے بارے میں غلط معلومات کی مہم تھی جس کے تحت پاکستان کے لیے اس منصوبے کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ اس منصوبے کا دوسرا اہم جزو پاکستانی حکومت کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر کے اس کے سی پیک سے متعلق عزم کو متزلزل کرنا تھا۔
اس سلسلے میں انہوں نے چالاکی سے سول ملٹری تعلقات کی کم زوری اور پاکستان کے اندرونی سیاسی خلفشار اور تقسیم کو استعمال کیا۔ 2014 میں حکومت کے خلاف چھ ماہ کا لمبا دھرنا جس کی وجہ سے چینی صدر شی چن پنگ کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا، اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں اس کھیل کا نادانستہ طور پر حصہ بن گئیں۔
پاکستان میں دہشت گردی 2000 میں شروع ہوئی اور لوگوں کو اس سے کافی پریشانی کا سامنا رہا۔ یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ ملک میں 2014 میں بھی انتہا پسند عسکری گروہوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، اور پاکستانی افواج کی عمدہ کارگردگی کی بہ دولت اور عوام کے جرات مندانہ حوصلے سے اس میں کام یابی نصیب ہوئی اور یہ آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گئی، لیکن اب اس نے نئے سرے سے سر اٹھا لیا ہے۔
پاکستان میں اب تک ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 70000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہواہے۔ ہمیں اب یہ تہیہ کرنا ہوگا کہ اس بار یہ عفریت پہلے کی مانند پنپنے نہیں دیا جائے گااور ہم مزیڈدجانی اور مالی نقصانات نہیں اٹھائیں گے۔