1991ء میں جب اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں نے ایم کیو ایم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں کیں اس وقت ایم کیوایم ہی تھی جس نے پارلیمنٹ کے ایوانوں اور ہر فورم پر کھل کر فوج اور ایجنسیوں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی، کھل کر مخالفت کی تو اس وقت کیا مسلم لیگ، کیا پیپلزپارٹی ،کیا اے این پی، کیا جماعت اسلامی، کیا نام نہاد جمہوریت پسند سیاستداں، کیا قلم فروش صحافی سب نے ایم کیوایم کو الزامات سے سنگسار کرنا شروع کردیا، پورا ملک ایم کیوایم پر چڑھ دوڑا کہ ایم کیوایم ملک کے مقدس اداروں کی کردار کشی کر رہی ہے اس وقت ایک طرف ایم کیوایم تھی اور دوسری طرف تمام نام نہاد ’’جمہوریت پسند‘‘ سیاسی ومذہبی جماعتیں اور فاضل کالم نگار جیسے لکھاری۔ مہاجروں پر فوج کشی کی گئی ،مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، ایم کیوایم کے ہزاروں بے گناہ کارکنان گرفتار کر کے انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ماورائے عدالت قتل کردیئے گئے مگر سارے نام نہاد جمہوریت پسند اس ریاستی ظلم و بربریت کے حامی ومددگار بنے رہے۔ حکومتیں بدلتی گئیں مگر یہ روش نہ بدلی۔ برسوں تک اس سول اور فوجی آمریت کا سامنا کسی اور نے نہیں بلکہ تن تنہا ایم کیوایم نے کیا ۔1998ء میں جب میاں نوازشریف نے سندھ میں گورنر راج نافذ کیا اور فوجی عدالتیں قائم کیں تو اس وقت ایم کیوایم اور الطاف حسین ہی تھے جنہوں نے اس غیر آئینی اور غیرجمہوری اقدام کے خلاف آئینی و قانونی جنگ لڑی۔ وہ تمام حضرات جو آج جناب الطاف حسین پر اپنی نفرت کے تیرو نشتر چلا کر جمہوریت کے چیمپئن بن رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر تو خود ضیاء مارشل لاء کی پیداوار ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں جب جناب الطاف حسین سمری ملٹری کورٹ سے ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھگت رہے تھے اس وقت جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن جنرل ضیاء کی کابینہ میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے تھے مگر آج وہ قوم کو جمہوریت کے نام پر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بھی عجب مذاق ہے کہ ملک کو بچانے کیلئے پاکستانی فوج کو پکارنے پر جناب الطاف حسین کو تو آئین سے انحراف کا مرتکب قرار دیکر ان کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کامقدمہ قائم کرنے کی بات کی جارہی ہے، مگر وہ طالبان جو پاکستان کی ریاست اور اس کے آئین کو ہی سرے سے نہیں مانتے ان سے مذاکرات کئے جارہے ہیں۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز جو فرماتے ہیں ’’پاکستان کاآئین کفرکاآئین ہے، ہم اس کفرکے نظام کونہیں مانتے‘‘ ان کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں اور انہیں بھرپور سرکاری سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے اور فاضل کالم نگار اپنے پروگرام میں ان کا وعظ سنتے ہیں۔ اسی طرح ایک بلوچ رہنما نیٹو افواج کو بلوچستان ٹیک اوور کرنے کی دعوت دیتا ہے مگر حب الوطنی کے تمام ٹھیکیداروں کو سانپ سونگھ جاتاہے۔جناب الطاف حسین ملک بچانے کی خاطر پاک فوج سے مدد مانگیں تو فاضل کالم نگار اور ان کے قبیلے کی نظر میں سزاوار ٹھہریں مگر طالبان کاترجمان شاہداللہ شاہد جو کھلے عام کہتا ہے کہ ہماری جنگ پاکستانی فوج سے ہے، اس قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے اور وہ پاکستان کے فوجی جرنیلوں ، افسروں اور ہزاروں جوانوں اور معصوم پاکستانیوں کے قاتل شاہداللہ شاہد اور ملّافضل اللہ کانام بھی نہایت عزت و احترام سے لیتے ہیں اور ان سفاک لوگوں کو صاحب کہہ کرمخاطب کرتے ہیں۔
جناب الطاف حسین پر بیجا تنقید کرنے والے ان حالات پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے فوج کو مخاطب کیا ۔ طالبان نے پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ رکھی ہے وہ دفاعی تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں ،مسلح افواج کے اثاثوں کو تباہ کر رہے ہیں، ان دہشت گردوں نے جی ایچ کیو تک پر حملہ کیا اور پورے ملک میں مساجد ،امام بارگاہوں ، بزرگان دین کے مزارات، بازاروں میں خودکش حملے کر کے ہزاروں فوجیوں، پولیس والوں اور معصوم شہریوں کو شہید کیا،ایف سی کے اہلکاروں کے سرتن سے جدا کئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جاتی لیکن فاضل کالم نگار اور ان جیسے عناصر نے طالبان سے مذاکرات کی دہائیاں دیں ،اے پی سی میں تمام جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کی رائے دی جس پر ایم کیوایم نے بھی امن کی خاطر اس کا ساتھ دیا لیکن طالبان نے اس کاجواب اس طرح دیا کہ اسے ریاست کی کمزوری سمجھتے ہوئے اپنے حملے شدید کر دیئے،حتیٰ کہ فوج کے جنرل ثنااللہ نیازی تک کو شہید کردیا، طالبان کے موجودہ سربراہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے وڈیو پیغام میں پاکستان کے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی قتل کرنے کی دھمکی دی ۔ایک طرف طالبان دہشت گرد ریاست کی رٹ کواپنے پیروں تلے روند رہے ہوں، پولیس ، فوج ،ایف سی ، رینجرز پر مسلسل خودکش حملے اور دھماکے کررہے ہوں، تھانوں ،پولیس چوکیوں ،رینجرز ہیڈ کوارٹر، ٹی وی چینلز کے دفاتر کو بموں سے اڑارہے ہوں، صحافیوں کو شہید کر رہے ہوں، صحافیوں اینکرز کی ہٹ لسٹ جاری کر کے انہیں قتل کی کھلی دھمکیاں دے رہے ہوں، ایف سی کے جوانوں کو بیدردی اور سفاکیت سے ذبح کر کے ان کے سرقلم کر کے ان کی سربریدہ لاشوں کو سڑک پر گھسیٹ رہے ہوں، ان کے سروں سے فٹبال کھیل رہے ہوں حکومت پھر بھی ان کے خلاف کارروائی کے بجائے ان سے مذاکرات کے اعلانات کر رہی ہو اور ان سے امن کی بھیک مانگ رہی ہو اور ’’پالیسی پالیسی‘‘ کھیل رہی ہو تو عوام کس سے فریاد کریں؟ عوام اور فوجیوں میں اس وقت کیا جذبات پائے جاتے ہیں فاضل کالم نگار تو اس کا مظاہرہ خود دیکھ چکے ہیں جب وہ وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے ساتھ راولپنڈی کے ایک سرکاری اسپتال گئے تھے اور خودکش دھماکے کے زخمی شدید غصہ میں وزیر دفاع خواجہ آصف پر لپکے تھے، ایک زخمی فوجی نے وزیراعظم سے کس قدر سخت لہجے میں طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ طالبان کے مسلسل خونی حملوں، دھماکوں، دہشت گردی کی وارداتوں اور اس پر حکومت کی مصلحت پسندانہ خاموشی کے باعث جب پورے ملک میں خوف اور جبروگٹھن کا ایسا ماحول ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور میڈیا کوئی بھی دہشت گردی کے خلاف ایک لفظ کہنے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ (جاری ہے)