بھارت میں انتخابات کے موقع پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنائو اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو راحت اندوری کے شعر یاد آجاتے ہیں:
سرحد پر بہت تنائو ہے کیا، کچھ پتہ تو کرو چنائو ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں، تیسری سمت کا دبائو ہے کیا
ایک طرف پاکستان کو گھس کر مارنے کی دھمکی دی جارہی ہے تو دوسری طرف سری لنکا سے متعلق جارحانہ عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ مودی جی نفرتوں کی آگ دہکا کر تیسری بار وزیراعظم بننے کاخواب دیکھ رہے ہیں۔چند روزقبل ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پردھان منتری نے پاکستا ن کا نام لئے بغیر کہا،ایک ملک جو آتنک (دہشت گردی) برآمد کیا کرتا تھا اب آٹے کیلئے بھیک مانگ رہا ہے۔یاد ش بخیر،یہ وہی نریندر مودی ہیںجو کہا کرتے تھے ،آپس میں بہت لڑلیا ،آئو اب غربت اور بیماری کے خلاف جنگ کریں ۔اتنی جلدی تو گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا۔چنائو کے موقع پر کشمیر اور پاکستان کیخلاف جارحانہ عزائم کا اظہار کرنا تو اب معمول بن چکا ہے مگر اس بار مودی سرکار نے کشیدگی کا دائرہ کار سری لنکا تک بڑھا دیا ہے۔ انتہاپسندحلقوں میں مقبولیت بڑھانے کیلئے چین کیساتھ سرحدی تنائو کے بعد اب سری لنکا کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ تھیو جزیرہ واپس کیا جائے۔جارحانہ نوعیت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بعدآبنائے پالک(Palk Bay)میں کئی ہفتوں سے کشیدگی میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بھارتی ریاست تامل ناڈو کو سری لنکن شہر Jaffna سے الگ کرنیوالے سمندر میں آبنائے پالک کے قریب 1.9کلومیٹر کی ساحلی پٹی جو Katchatheeeve Ilandکہلاتی ہے یہ علاقہ سری لنکا اور بھارت کے درمیان 1921ء سے متنازع حیثیت کا حامل رہا ہے۔1974ء میں جب اندر اگاندھی وزیراعظم تھیں تو انہوں نے سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو ہمیشہ کیلئے حل کردیا۔دو طرفہ معاہدے کے ذریعے تھیوو جزیرے پر سری لنکا کا حق ملکیت تسلیم کرلیا گیا۔اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کانگریس کو نیچا دکھانے اور سیاسی شعبدہ بازی کے پیش نظر نہ صرف اندرا گاندھی پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ یہ طعنے دے رہے ہیں کہ کانگریس نے یہ جزیرہ سری لنکا کو تحفتاً پیش کرکے دیش کیساتھ غداری کی۔تامل ناڈو کی حکمران جماعت ڈی ایم کے(Dravida Munnetra Kazhagam) جو 1974ء میں برسراقتدار تھی ،اب بھی زمام اقتدار اسی کے پاس ہے ۔ڈی ایم کے نے کئی بار یہ معاملہ وزارت خارجہ کے ساتھ اُٹھایا ،یہاں تک کہ 2008ء میں ریاست تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ تھیوو جزیرہ سری لنکا سے واپس لیا جائے۔3 مئی2013ء کو تامل ناڈو کی اسمبلی نے اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ کی دائر کردہ درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا تو مودی سرکار نے وہاں یہ موقف اختیار کیا کہ 1974ء میں حکومتی سطح پر ہونے والے معاہدے کی رو سے یہ قضیہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے طے ہوچکا ہے اور اب تھیو و جزیرہ واپس لینے کیلئے بھارت کو جنگ کرنا پڑیگی۔ اب اچانک مودی سرکاری نے پینترا بدل کر یہ جزیرہ سری لنکا سے واپس لینے کی باتیںکیوں شروع کردی ہیں؟ اسلئے کہ تامل ناڈو میں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ووٹ بینک بڑھا یا جائے اور بی جے پی چند نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوجائے چاہے اسکے لئے سفارتی سطح پر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بگڑ ہی کیوں نہ جائیں۔
بھارت میں لوک سبھا کی 543نشستوں پر انتخابات سات مراحل میں ہونا ہیں۔پہلے مرحلے میں 21ریاستوں میں پارلیمنٹ کے 102حلقوں میں 19اپریل کوووٹنگ ہوئی جبکہ آخری مرحلے میں یکم جون 2024ء کو پولنگ ہوگی جس کے بعد 4جون 2024ء کو ایک ساتھ ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج کا اعلان کیا جائیگا۔مودی سرکار کی پریشانی یہ ہے کہ 2019ء میں ہونیوالے عام انتخابات کے دوران تامل ناڈو میں لوک سبھا کے 39حلقوں میں سے اسے ایک نشست پر بھی کامیابی نہیں ملی تھی ۔اب تھیو و جزیرے کے حوالے سے بیان بازی کرکے صورتحال کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ قومی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا سمیت ابلاغ کے تمام ذرائع کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے زبردست پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔نریندرمودی کے فوٹو شوٹ ہی نہیں فلم انڈسٹری کے ذریعے بھی ووٹروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔شاید آپ نے یہ بات نوٹ کی ہو کہ انتخابات قریب آتےہی ہندوتواکے موضوعات پر فلمیں ریلیز ہونے لگتی ہیں۔2019ء کے انتخابات سے پہلے دو قابل ذکر فلمیں سامنے آئی تھیں۔ منموہن سنگھ کے سابقہ میڈیا ایڈوائرز سنجے بارو کی کتاب پر مبنی فلم ’’ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘‘اور ’’ہو کِلڈ شاستری‘‘۔ایک فلم میں منموہن سنگھ کو ایک کمزور اور ناکام وزیراعظم کے طور پر پیش کیا گیا تو دوسری میں شاستری کی موت کے حوالے سے سازشی تھیوریوں کوحقیقت بنا کر دکھایا گیا۔اس بار انتخابات سے پہلے ہندوتوا کے ایجنڈے کا احاطہ کرنیوالی فلموں کی بھرمار ہوگئی ہے۔’’تاشقند فائلز‘‘ اور ’’دا کیرالہ اسٹوری‘‘نامی فلمیں گزشتہ برس ریلیز ہوئیں اور پھر ایک فلم آئی جس کا نام ہے’’میں اٹل ہوں‘‘۔کشمیر میں آرٹیکل 370کے خاتمے سے متعلق فلم بنائی گئی ہے ’’جے این یو ۔جہانگیر نیشنل یونیورسٹی‘‘ اور ’’رضاکار‘‘نامی فلمیں اسی مہم کا حصہ ہیں ۔ 2002ء میں گودھرا ٹرین جلائے جانے سے متعلق فلم بنائی گئی ہے جس کا نام ہے’’ایکسیڈینٹ اور کانسپریسی :گودھرا‘‘۔فلموں کی کہانی بیان کرنا تو درکنار اگر صرف نام گنوانے بیٹھیں تو یہ کالم تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہندی ہی نہیں تیلگوفلموں میں بھی ہندوتوا کا پرچار کیا جارہا ہے۔
ایک طرف پاکستان میں بھارت سے دوستی کی باتیں ہورہی ہیں ،دوطرفہ تجارت شروع کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بھارت میں جارحانہ عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے۔لگتا ہے بات چیت کیلئے سازگار ماحول انتخابات کے بعد ہی ممکن ہوگا۔جب تک چنائو کا سلسلہ مکمل نہیں ہوتا تب تک اسی قسم کی باتیں سننے کو ملیں گی۔