(آخری قسط)
خوف و دہشت اور جبروگھٹن کے ایسے ماحول میں بھی اگر کوئی خطرات مول لیتے ہوئے میدان میں آیا تو وہی الطاف حسین جسے قابل نفرت جانا گیا اور الزامات لگائے مگر اس نے ان الزامات کی پروا نہ کی اور 23فروری کو کراچی میں مسلح افواج، ایف سی، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اظہار یکجہتی کیلئے ایک عظیم الشان ریلی نکالی جس میں لاکھوں افراد نے طالبان کو پیغام دیاکہ قوم دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج کے ساتھ ہے۔
مگر الطاف حسین پر الزامات لگانے والے پاکستان کے بارے میں سوچنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، طالبان عملداری اب قبائلی علاقوں سے نکل کر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی کے ایک تہائی علاقوں تک قائم ہو چکی ہے، دیہی سندھ میں علیحدگی پسند زور پکڑ رہے ہیں، وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت اسلام آباد خطرناک ترین شہر بن چکا ہے ۔ پنجاب کونسا محفوظ ہے، وہاں دہشت گردی کا خطرہ اس قدر ہے کہ لاہور میں عین وقت پر وزیراعظم کو قومی پرچم کی یادگاری تقریب ملتوی کرنا پڑی ،پھر رہ کیا جاتا ہے؟یہ ساری صورت حال آخر کس جانب اشارہ کرتی ہے؟ ہمارے ’’برادر اسلامی‘‘ ملکوں کی سردجنگ بھی اس وقت پشاور سے کراچی تک پھیل چکی ہے ،فرقہ وارانہ قتل اور حملے بھی اسی کی کڑیاں ہیں۔یہ سب کیا ہے؟ واشنگٹن کے ایوانوں میں بلوچستان کی آزاد ی اور پاکستان توڑنے کے منصوبوں پر کھلے عام بحث ہورہی ہے، کیا ہمارا ملک ،ہماری ریاست خطرے میں نہیں؟ ایسے میں کیا ہم آئین کی کتاب اور جمہوریت کے نام پر حکومت کو بچائیں یا ملک کو؟ ملک بچے گا تو حکومتیں بھی بنتی رہیں گی اور آئین بھی لیکن اگر خدانخواستہ ملک ہی نہیں بچے گا تو حکومت کہاں بنائیں گے؟ جمہوریت اور آئین کہاں رائج اور نافذ کریں گے؟ ملک ہے تو نظام ہے ،ملک نہ ہو تو نہ کسی نظام کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کسی آئین کی۔ ہمارا ملک پاکستان تو اس تجربہ سے بھی گزر چکا ہے۔پاکستان اگرچہ 1947ء میں قائم ہوا لیکن پاکستان کا پہلا آئین 1956ء میں تشکیل پایا۔ 9سال تک پاکستان بغیر آئین کے چلتا رہا ۔گویا کوئی بھی ملک بغیر آئین کے تو زندہ رہ سکتا ہے مگر ملک کے بغیر کوئی بھی آئین بے معنی ہے خواہ وہ کتناہی اچھا کیوں نہ ہو ۔ملک اسی صورت میں بچا کرتے ہیں جب اندر سے بھی مضبوط ہوں، ملک میں بسنے والے عوام کو ان کے تمام حقوق میسر ہوں۔ 1971ء میں پاکستان، پاکستان آئین کی وجہ سے نہیں بلکہ مشرقی پاکستان کے محروم بنگالی عوام کو ان کا حق نہ دینے اور ریاست کی رٹ ختم ہونے کی وجہ سے ٹوٹا۔ برطانیہ جس نے آدھی سے زیادہ دنیا پر حکمرانی کی وہاں اگرچہ پارلیمانی طرز جمہوریت ہے لیکن وہاں کوئی باقاعدہ تحریری آئین نہیں ہے پھر بھی برطانیہ قائم اور مضبوط ہے اس لئے کہ ریاست کی رٹ پورے ملک پر قائم اور عوام کو ان کے حقوق میسر ہیں۔ گویا ملک بغیر آئین کے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ آج جو لوگ جمہوریت اور آئین کی دہائیاں دے رہے ہیں ان سب نے اپنے اپنے دور حکومت میں ایسے ایسے غیر جمہوری اور غیر آئینی کام کئے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کیا بھٹو نے 1974ء میں بلوچستان کی حکومت برطرف کر کے وہاں گورنر راج نافذ نہیں کیا؟ کیا نواز شریف نے 1998ء میں سندھ کی حکومت اور اسمبلیاں معطل کر کے وہاں گورنر راج نافذ نہیں کیا؟ وہاں فوجی عدالتیں قائم نہیں کیں جنہیں سپریم کورٹ نے بعد میں غیر آئینی قرار دے دیا تھا؟ کیا پیپلز پارٹی نے اپنے پچھلے دور حکومت میں 2012ء میں پنجاب میں گورنر راج نافذ نہیں کیا؟ کیا یہ سارے اقدامات جمہوری اور آئینی تھے؟ شہری حکومتیں یا بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری قرار دیئے جاتے ہیں مگر جمہوریت کے ان نام نہاد علمبرداروں نے جمہوریت کی اس نرسری پر برسوں سے تالے کیوں ڈالے ہوئے ہیں؟ دراصل انہیں جمہوریت نہیں حکومت کی فکر ہے، اپنے دھندوں کی فکر ہے ،انہیں ملک اور ریاست کی کوئی فکر نہیں ۔
آخری بات…ہمارے اکثر دانشور اور قلمکار اپنے تبصروں اور تجزیوں میں ملک کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے پاکستان کی بہتری اور ترقی کیلئے جدید ترکی کے بانی اتاترک کے پیدا ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں، حضور والا! اتاترک کسی سیاسی جماعت کا رہنما نہیں بلکہ سلطنت عثمانیہ کی فوج کا جرنیل تھا جس نے نہ صرف ملک کو بیرونی حملہ آوروں سے بچایا بلکہ صدیوں تک نسل در نسل حکمرانی کرنے والے عثمانی خاندان کی بادشاہت سے ترکی کو نجات دلا کر اسے ترقی کی راہ پر ڈال دیا ۔ ملک کی ترقی عزیز ہے تو پھر یہ شرط کیوں کہ وہ اتاترک کس شعبہ یا صوبے سے ہو؟ حضور والا!ترکی کے دورے کرلینے اور ترکی کے وزیر اعظم کو پاکستان کے دورے کرالینے سے پاکستان ترکی نہیں بن جائے گا ،پاکستان کو ترکی بنانا ہے تو کسی اتاترک کو قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہونا ہوگا خواہ ہو کسی شکل میں بھی ہو اور کسی بھی صوبے سے ہو۔