ملاحت کلیم
آج کل تعلیم کے حوالے سے جب بھی کوئی بات شروع کی جائے تو گفتگو کا اختتام معیار تعلیم پر ہوتا ہے اور اس بات پر سب ہی متفق ہوتے ہیں کہ معیار تعلیم روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مورد الزام کبھی حکومت کی تعلیمی حکمت عملی ہوتی ہے، کبھی طریقہ تعلیم، کبھی والدین اور کبھی اساتذہ۔
تعلیم اور نظام تعلیم کے اجزائے ترکیبی کو اگر علیحدہ علیحدہ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیم اور نظام تعلیم در اصل دو الگ لیکن باہم مربوط سلسلے ہیں ۔ تعلیم جس کےساتھ لفظ تربیت بھی اکثر استعمال کیا جاتا ہے(یعنی تعلیم و تربیت) اس کا دائرہ والدین ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے گرد گھومتا ہے۔ نظام تعلیم، حکومت ، تعلیمی حکمت عملی اور اساتذہ سے مل کر بنتا ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ معیار تعلیم کے عروج و زوال کا سبب بھی یہی عوامل ہوتے ہیں۔
اساتذہ تعلیم اور نظام تعلیم دونوں کا مشتر کہ جزو ہیں اس لئے اس بات کو ماننے میں کسی کو کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ معیار تعلیم کے اچھے یا برے ہونے میں اساتذہ ہی سب سے زیادہ موثرو اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیمی حکمت عملی خواہ کیسی بھی ہو، نظام تعلیم کسی بھی طریقہ کا ہو، اس کا اطلاق تو ہر حال اساتذہ ہی کو کرنا ہوتا ہے ۔ طالب علم کا براہ راست رشتہ نہ نظام تعلیم سے ہوتا ہےنہ تعلیمی حکمت عملی سے،اس تک تو تعلیم اساتذہ کے ذریعے ہی پہنچتی ہے ، اس لئے بھی معیارتعلیم کے بہتر یا بد تر ہونے کا انحصار اساتذہ پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں نظام تعلیم کو ہم تین مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اوّل، اسکول، دوم کالجز، سوم جامعات - استاد اور طالب علم کا رشتہ پہلے ہی مرحلے یعنی اسکول سے قائم ہو جاتا ہے جو درجہ بدرجہ اہمیت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ اسکول میں آنے والا طالب علم کم عمر اور اس کی فہم نا پختہ ہوتی ہے ،تاہم اس میں سیکھنے اور اثرات قبول کرنے کی صلاحیت یقینا زیادہ ہوتی ہے ،اس لئے اس وقت اساتذہ کا کردار سب سے زیادہ نازک اہم اور موثر ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف تعلیم بلکہ تربیت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ہمارے طالب علموں کی بدقسمتی دیکھٔے کہ ابتدائی مرحلے پر ہی انہیں وہ تعلیم اور رہنمائی میسر نہیں آتی جو ان کی صحیح ذہنی نشو و نما کر سکے، ان کے کردار و سیرت کو صحیح خطوط پر گامزن کر سکے اور انہیں ایک کارآمد و با صلاحیت شخصیت بننے میں مدد دے سکے ۔ اس کی وجہ صرف اسکولوں کی کمی نہیں ،کیونکہ سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کی اچھی خاصی تعداد تو قدم قدم پر موجود ہے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ کا رویہ وہ نہیں جو ہونا چاہیے یا جو اُن کے منصب کا تقاضا ہے۔
سرکاری اسکولوں میں ملازمت کا تحفظ انہیں مستعد بنانے کے بجائے لا پروا بناتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دوسرے اداروں میں سرکاری ملازمین کو میسر سہولتوں کا ان کے لئے فقدان ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے بنیادی فرائض کو بجاطور پر ادا کرنے کے بجائے بیگار کاٹنے کے انداز میں بغیر کسی دلچسپی اور خلوص کے جیسے تیسے کلاسیں لیں اور یہ سمجھ لیں کہ انہیں جو تنخواہ ملتی ہے انہوں نے اُس کا حق ادا کر دیا۔
غیر سرکاری اسکولوں میں ،کیونکہ ملازمتوں کا تحفظ بھی نہیں ہے اور اکثر ان اداروں میں نو عمر لڑکے اور لڑکیاں بھی وقت گزاری کے لئے ملازمت کر لیتے ہیں، اس لئے وہاں مزید غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویہ نظر آتا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ آج اساتذہ مجوزہ نصاب کو کسی نہ کسی طرح پورا کر دینا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ اسکول میں طالب علم عمر کے جس دور میں ہوتا ہے،وہ اس میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش رکھتا ہے۔
نصابی کتب کی محدود معلومات اکثر اس کی تسلی نہیں کر سکتیں لیکن اساتذہ کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ اس سلسلے میں اس کی صحیح رہنمائی کر سکیں وہ نصابی کتب سے ہٹ کر اس کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرتے، اس طرح طالب علم مختلف درجوں کے امتحانات پاس کرتا ہواآ گے تو بڑھتا ہے لیکن نہ تو اس کی ذاتی علمیت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ اس کے ذہن کو جلا ملتی ہے۔
اساتذہ خود وقت نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کی رہنمائی ان کتب تک تو کرہی سکتے ہیں جہاں سے انہیں مطلوبہ معلومات حاصل ہوسکیں اور ان کی تسکین ہو سکے لیکن یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب وہ مطالعے کے عادی ہوں اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوں ۔ بات بہت تلخ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے اس لئے اسکولوں کی سطح سے طالب علموں کو وہ زادراہ ملتا ہی نہیں جو تعلیمی سفر میں انکو توانائی فراہم کرتا ہے۔
وہ مضبوط بنیادہی نہیں بنتی جس پر علم و عمل، کردار اور سیرت کی عمارت قائم کی جاسکے۔ اسی ماحول میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جو اپنی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور دیانتداری سے محض علم کے فروغ کے لئے یہ پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے،اس لئے ان کا دائرہ اثر بھی محدود ہے، یہی وجہ ہے کہ مجموعی صورت حال کا جب بھی جائزہ لیا جائے تو نا امیدی ہی ہوتی ہے۔
استاد او طالب علم کارشتہ دوسرے اور تیسرے مرحلوں میں یعنی کالج اور جامعات کی سطح پر بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے لیکن اسکول سے کیونکہ بنیاد پڑتی ہے اس لئے اس سطح پر جو کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں،وہ اوپر کی سطح تک معیار تعلیم کو متاثر کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ تقریبا ہر طرف یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ تجارتی صنعتی یا مالی منفعت بخش اداروں اور پیشوں میں بد عنوانیاں اتنی اذیت نہیں دیتی ہیں جتنی کہ ایسے پیشے جن کی روح شعار خدمت ہے یعنی طب، وکالت ، درس و تدریس اور سماجی بہبود و غیرہ۔
ان میں بھی درس و تدریس کیونکہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لئے شکایت بھی اساتذہ سے ہی زیادہ ہے اس تصویر کا اگر دوسرا رخ دیکھا جائے اور اساتذہ کے نکتہ نظر سے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ان کاطرز عمل ایک مخصوص ماحول کا نتیجہ ہے۔ دراصل انسان کے افرادی یا اجتماعی رویئے بعض اوقات اس کی اپنی فطرت کا اظہا رنہیں ہوتے بلکہ گرد و پیش کا ماحول انہیں ایک خاص راستے پر ڈال دیتا ہے اور یہی ماحول تعلیمی اداروں کی صورت حال پر نظام تعلیم تعلیمی حکمت عملی اور نصاب بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
نظام تعلیم کو اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بھی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے پچھتر سال بعد بھی ہم ابھی تک اپنا کوئی نظام تعلیم وضع نہیں کر سکے۔ ملک میں بیک وقت سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پرائمری نظام ہے جبکہ غیر سرکاری سطح پر قائم ادارے مونٹیسوری ،کنڈر گارڈن اور امریکن سسٹم کے نام پروالدین سے منہ مانگی فیس وصول کر رہے ہیں۔
آگے بڑھیں تو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں حکومت کی طرف سے میٹرک سسٹم رائج ہے، جو بورڈ کے سالانہ امتحانات کے نظام پر چلتا ہے، دوسری طرف کیمبرج سسٹم ہے،جو براہ راست طلباکو لندن یونیورسٹی کے او اور اے لیول کے امتحانات کی تیاری کراتا ہے، بعض اسکولوں میں تو بیک وقت دونوں طریقہ تعلیم یعنی میٹرک اور کیمبرج ساتھ ساتھ ہیں۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر تجارتی ذہن رکھنے والے افراد نے " فروغ تعلیم کی آڑ میں فروخت تعلیم کا کامیاب کاروبار جمایا ہوا ہے۔
ابتدائی جماعتوں کے لئے حکومت کی حکمت عملی کو اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں پہلی تا پانچویں مفت تعلیم بھی ہے اور لازمی بھی (بیانات کی حد تک) حکومت نے بڑی تعداد میں اسکول بھی قائم کر دیے ہیں لیکن کیا صرف ان اداروں کے لئے عمارتیں بنا کر دے دینے کے بعد حکومت کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہتی ؟ ان اسکولوں میں اساتذہ جو مشکلات اٹھاتے ہیں۔ اسکول کی چار دیواری کے اندر جو بنیادی وسائل کی کمی ہوتی ہے اور تربیت یافتہ اساتذہ کی موجودگی میں بھی طلبا، صحیح علم حاصل نہیں کر پاتے،ان سب معاملات کو دیکھنا بھی تو حکومت وقت کے اہم فرائض میں شامل ہے ۔
"نصاب" تعلیم اور معیار تعلیم کے حوالے سے جتنی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے "سرکاری" علمبرداران تعلیم کی نظروں میں اتنا ہی بے وقعت ہے ۔ موجودہ مجوزہ نصاب کسی بھی سطح پر آج کی ضروریات کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے ۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بےجانہ ہوگا کہ ہمارا موجودہ نصاب آج کے طالب علم کی علمی ضروریات کو پورا کرنے سے معذور ہے۔ یہ فرسودہ اور پرانی معلومات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی ذہنی استطاعت سے کہیں زیادہ مختلف مضامین کا بوجھ ان پر ڈالا جاتا ہے۔
ابتدائی جماعتوں میں انہیں صرف ” زبانیں ہی دو دو، تین تین پڑھنی پڑتی ہیں۔ غیر معیاری اور غیر متوازن نصاب کی وجہ سے طلباً اساتذہ اور والدین سب پریشان ہیں ۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر پورے نصاب کو مکمل طور پر تبدیل کیا جائے ۔ جب تک ہم اپنا نصاب تعلیم نہیں بدلیں گے معیار تعلیم بہتر بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ بہت سے ذہنوں میں یہ بات آئے گی کہ نصاب بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
نظام تعلیم بھی حکومت کا ہی درد سر ہے۔ لیکن کیا ہم سارے معلم، دانشور، ادیب اور خود والدین اتنے ہی کمزور ہیں کہ سب مل کر بھی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول نہیں کرا سکتے کہ موجودہ نصاب تعلیم بلکہ خصوصا پورا نظام تعلیم ہمارے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے بجائے انہیں نا کارہ بنا رہا ہے۔
موجودہ طریقہ تعلیم سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بات معیار تعلیم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آج طلبا میں بے چینی ، تعمیری اور فلاحی کاموں کے مقابلے میں جرم وتشدد کی طرف بڑھتا ہوا ان کا رجحان اخلاقی اقدار سے روگردانی، اپنے مذہب، ثقافت اور تہذیبی روایات سے دوری یہ سب اسی کا نتیجہ ہیں۔
اساتذہ کو درپیش مسائل بھی توجہ طلب ہیں پورے نظام کی بہتری کے لئے ان کا فوری طور پر حل ضروری ہے۔ خاص طور پر ان کو تربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ تربیت یافتہ اساتذہ کو ان کے تجربے اور قابلیت کے مطابق مقام دیا جائے ،ان کو سہولتیں اور مراعات مہیا کی جائیں تاکہ ان کی ذاتی پریشانیاں اور مسائل حل ہو سکیں، تب ہی وہ بھی دلچسپی اور یکسوئی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں گے۔