• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں قیام امن کی راہ ہموار کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ابتدائی رابطے مکمل کرنے کے بعد جمعرات کو حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے ارکان نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی جس میں مذاکراتی عمل آگے بڑھانے، دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام، ان واقعات کے ذمہ داروں کے تعین اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد بعض ایسے فیصلے کئے گئے جن پر عملدرآمد کے لئے انتہائی احتیاط اور گہرے غور و فکر کی ضرورت ہو گی سب سے اہم فیصلہ طالبان سے براہ راست خفیہ مذاکرات شروع کرنے کا ہے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ موجودہ حکومتی کمیٹی رابطہ کار کے طور پر کام کرتی رہے گی البتہ طالبان سے بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے پارلیمانی سطح کی ایک اور بااختیار کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور فوج کا ایک ایک نمائندہ بھی شامل کیا جائے گا وزیراعظم مذاکراتی عمل کی خود نگرانی کریں گے جبکہ وزیر داخلہ فوکل پرسن ہوں گے وزیراعظم نے کمیٹیوں کے ارکان سے گفتگو کے دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک کر کے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا اور امن قائم کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ آپریشن کی نوبت نہ آئے طالبان سے حکومت کے براہ راست مذاکرات کی ضرورت تو روز اول سے ہی محسوس کی جا رہی تھی مگر انہیں خفیہ رکھنے کی موافقت اور مخالفت میں سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کے پاس کافی دلائل موجود ہیں خفیہ مذاکرات کے حامی سمجھتے ہیں کہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلےبات چیت کی تفصیلات افشا ہونے سے بحث و تکرار کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے مذاکرات کی روح کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملکی سلامتی اور یک جہتی جیسے معاملات پر ہونےوالی بات چیت سے عوام کو بے خبر رکھنا اور اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر نہ چلنا قومی مفاد میں نہیں ہے اس سے قیاس آرائیاں جنم لیتی ہیں جو زیادہ نقصان دہ ہیں بہر صورت میڈیا کی آزادی کے اس دور میں یہ قطعی طور پر ممکن نہیں کہ مذاکرات پوری طرح خفیہ رہ سکیں۔ میڈیا اپنے ذرائع سے خبریں تو عوام تک پہنچاتا رہے گا اس لئے خفیہ مذاکرات کی افادیت محل نظر ہو سکتی ہے ماضی میں کئی معاہدے خفیہ مذاکرات ہی کے نتیجے میں ہوئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ کسی نہ کسی فریق کی عدم پاسداری کے باعث ہوا میں تحلیل ہو گئے ایک اور مسئلہ مذاکرات میں فوج کی شمولیت ہے اس کے حق میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ سکیورٹی مفادات کا تعلق براہ راست فوج سے ہے حقائق کا زیادہ علم اسی کو ہوتا ہے وہی فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہوتی ہے اس لئے ضرورت ہے کہ وہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ اس کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ فوج پہلے بھی معاہدے کرتی رہی ایسے 12 میں سے مبینہ طور پر صرف دو معاہدوں پر عمل ہوا باقی ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سمجھوتے کی کامیابی کے لئے فوج کے عملی تعاون کے ساتھ ساتھ سیاسی عزم اور قوم کی اجتماعی شرکت نہایت ضروری ہے اصل صورت حال کا علم تو حکومت اور دفاعی اداروں کو ہو گا لیکن جو حقائق قوم کے سامنے ظاہر ہوتے رہے ان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت اس معاملے میں ایک ہی صفحے پر ہے وزیراعظم کی فوجی سربراہ سے ملاقاتیں اتفاق رائے کے حصول کے لئے ہی ہوتی رہی ہیں بہر طور مذاکرات کو خفیہ رکھنا اور ان میں فوج کی نمائندگی کے مسائل گہرے غور و فکر کے متقاضی ہیں اور حتمی فیصلے سوچ سمجھ کر ہی کرنے چاہئیں وزیراعظم کی یہ خواہش بھی قابل تحسین ہے کہ دہشت گردی پرامن مذاکرات کے ذریعے ختم ہونی چاہئے اور ان کی کوشش ہے کہ آپریشن کی نوبت نہ آئے مگر ان کی یہ خواہش اسی صورت میں پوری ہو سکتی ہے جب دوسرا فریق بھی اپنے رویئے میں لچک پیدا کرے خاص طور پر جو عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں انہیں ناکام بنانا حکومت کی ہی نہیں طالبان کی بھی ذمہ داری ہے دونوں کو مل کر اس سلسلے میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں پوری قوت سے دور کرنی چاہئیں۔تاکہ ملک کو امن واستحکام نصیب ہوسکے۔
گردشی قرضوں میں پھراضافہ؟
بجلی کے بحران کی شدت میں کمی کے لئے وفاقی حکومت نے اختیارات سنبھالنے کے فوراً بعد بجلی کمپنیوں کے ورثے میں ملنے والے تقریباً پانچ سو ارب کے واجبات کی ادائیگی کرکے بجلی کی پیداوار میں فوری طور پر1700 میگاواٹ کے اضافے کا مستحسن اقدام کیا تھا۔ گزشتہ سال جون کے مہینے میں کئے گئے اس بندوبست کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی جس سے گھریلو صارفین کو سہولت ملنے کے ساتھ ساتھ صنعتوں کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی۔ پچھلے نو ماہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈیز کے ختم یا کم کئے جانے کے فیصلوں کے پیش نظر توقع تھی کہ گردشی قرضوں اور بجلی کمپنیوں کے واجبات میں اب کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ لیکن گزشتہ روز حکومت کی جانب سے سینیٹ کے اجلاس میں یہ انکشاف کہ گردشی قرضے ایک بار پھر 246 ارب روپے کی بلند سطح تک جاپہنچے ہیں، تشویشناک ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر ریاستی و سرحدی امور لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے اس صورت حال کی وجہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور کل پیدوار کے 22 فی صد کے بقدر بجلی کی چوری کو قرار دیا۔ ان کے مطابق گردشی قرضوں کی یہ پوزیشن31 جنوری تک تھی ۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق گردشی قرضوں میں سات ماہ میں 165 ارب روپے کا اضافہ ہواجبکہ جو قرض جون میں باقی رہ گیا تھا اس کی مالیت81 ارب روپے تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گردشی قرضے تقریباً چھ ارب روپے فی ہفتہ کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مسلسل اضافوں کے باوجود گردشی قرضوں میں یہ اضافہ ناقابل فہم ہے کیونکہ ان اضافی وسائل سے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام متوقع تھا۔ بجلی کی پیداوار کا بائیس فی صد تک چوری ہونا اور بلوں کی عدم وصولی متعلقہ اداروں اور ذمے داران کی ناکارکردگی اور نااہلی کا کھلا مظاہرہ ہے جسے گردشی قرضوں میں اضافے کا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی جہاں بھی ہوتی ہے ،متعلقہ محکموں اور اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہوتی ہے۔ ان اداروں کی اصلاح اور درستگی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

تھر:فاقہ زدہ بچوں پر توجہ دیں
ایک اطلاع کے مطابق سندھ کے ضلع تھر پارکر میں قحط کی سی صورتحال میں مناسب غذائی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے32بچے بھوک اور فاقوں سے دو چار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں اور مجموعی طور پر اس سے ایک لاکھ پچھتر ہزار خاندان متاثر ہورہے ہیں جن میں سےبہت سوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے اپنے گھروں اور آبائی مقامات کو چھوڑ کر دوسرے شہروں، قصبات اور دیہات کا رخ کرنا پڑا ہے۔ ان حالات میں یہ خبر ایک حد تک تسلی بخش ہے کہ پی پی پی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو نے حکومت سندھ کو فوری طور پر ریلیف آپریشن شروع کرنے اور ان متاثرہ خاندانوں کی بحالی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ پی پی پی کے سرپرست اعلیٰ کی جانب سے تھر میں اپنے پنجے گاڑنے والی قحط سالی کے منفی اثرات کا نوٹس لیا جانا برمحل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں خواہ وہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں، وہ خود حالات کا بروقت جائزہ لے کر عوام کی مدد کو کیوں نہیں پہنچتیں اور جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہوجائے اس وقت تک کیوں خبر نہیں ہوتی؟ صرف سندھ ہی نہیںکے پی کے ،بلوچستان اور پنجاب کے متعدد دور افتادہ علاقوں میں بھی پانی کی قلت، قحط سالی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کے لئے تلخی حالات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے اور ان کے لئے زندگی بہت اجیرن ہوگئی ہے ۔ان حالات میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شان و شوکت کے اظہار میلوں ٹھیلوں سمیت غیرترقیاتی مدوں پر اربوں روپے اڑانے کی بجائے انہیں پانی، خوراک ، تعلیم ، علاج معالجے جیسی بنیادی عوامی ضروریات کو پورا کرنے پر خرچ کریں کیونکہ اگر عوام خوراک اور علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہوں تو پھر انہیں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔جو حکومتیں عوام کی ان کلیدی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتیں وہ کیسے عوامی اور جمہوری حکومتیں ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔
تازہ ترین