• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی ملک گیمبیا کے دارالحکومت بانجول میں 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے 15 ویں سربراہی اجلاس میں عالمی طاقتوں پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے کے لئے غزہ میں فوری جنگ بندی کرائیں اور محصور فلسطینیوں کیلئے غذائی اشیا اور ادویات سمیت امداد کی رسائی اور فراہمی کو یقینی بنائیں۔ یہ مطالبہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب قاہرہ میں مصر کے زیر اہتمام امن مذاکرات ناکام اور غزہ اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں جنگ بندی کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں،فلسطینیوں کی تنظیم حماس مذاکرات میں مکمل جنگ بندی کے مطالبے پر اڑی رہی جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جنھیں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے،مختصر مدت کی فائر بندی پر مصر ہیں تاکہ اسرائیل فورسز کی قوت کو مجتمع کرکے فلسطینیوں پربھر پور حملہ کرسکے اور اپنے اس اعلان کو عملی جامہ پہنا سکے کہ وہ فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دم لے گا۔ تاہم ایک غیر مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ملک میں ہونے والے طلبہ کے مظاہروں اور عالمی دبائو کے تحت اسرائیل کو مزید اسلحہ کی فراہمی روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سے غزہ پر اسرائیل کی لشکر کشی اور فضائی حملے شروع ہوئے ہیں امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور ان کے اتحادی ممالک مسلسل اسرائیل کو اسلحہ اور نقد امدادفراہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل فلسطینیوں کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت اور مسئلے کے دو ریاستی حل سے انکار کر رہا ہے۔ اسلامی تنظیم کی سربراہی کانفرنس کے اعلامیہ میں فلسطین کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کا ذکر نہیں ہے جو اہل فلسطین اور مسلمانان عالم کا متفقہ مطالبہ ہے لیکن امریکہ اس حوالے سے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو حال ہی میں ویٹو کرچکا ہے۔ کانفرنس کے 34نکاتی اعلامیہ میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور سلامتی کونسل سے کہا گیا کہ اپنی قراردادوں کے مطابق اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو بھارت سے حق خود ارادیت دلایا جائے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس نے جس میں سربراہوں کی بجائے زیادہ تر ان کے نامزد کردہ نمائندوں نے شرکت کی، عالمی عدالت انصاف کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور محصور فلسطینیوں کے لئے امداد پہنچانے کا عمل تیز کرنے کے احکامات پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا جنہیں اسرائیل مسترد کرچکا ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں یورپی ممالک میں قرآن پاک کی بیحرمتی کے افسوسناک واقعات کی مذمت کی گئی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے نیز اسلامو فوبیا کی مذموم مہم روکنے پر زور دیا گیا ۔ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں عرب اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دیا اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم روکنے، حریت رہنمائوں کی فوری رہائی اور مقبوضہ ریاست کو بھارت میں ضم کرنے کے اقدامات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت اوآئی سی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف منظم کارروائیوں اور ان کے حقوق سلب کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا اور تشویش ظاہر کی گئی ۔او آئی سی نے کئی اہم معاملات کا نوٹس لیا ہے لیکن عالم اسلام اس تنظیم سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی اٹھائے گی ۔

تازہ ترین