• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بین الاقوامی رپورٹ میں جہاں اس امرکی نشاندہی کی گئی ہے کہ غیر قانونی تجارت سے پاکستانی خزانے کو700ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے وہاں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس کیفیت کے نتیجے میں قانون کے پابند سیکٹرز کی منافع کمانے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا جو سنہری موقع ملا ہے اس سے فائدہ اٹھانے میں جیف ہارڈی کی مرتب کردہ رپورٹ یقیناً مدد دے سکتی ہے جو پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی (پرائم) نامی پاکستانی تھنک ٹینک کی میزبانی میں لانچ کی گئی ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کے جائزہ میں مہنگائی کی شرح 25فیصد کی ہوش ربا سطح پر بتائی گئی ہے جو ہمارے اندازوں سے مختلف ہے ۔ مگر اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ غیر معمولی مہنگائی نے صارفین کی قوت خرید پرتباہ کن اثر ڈالا ہے۔ مصنوعات خریدنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے جس کا ایک سبب غیر قانونی تجارت ہے۔ جب اشیا کی قیمتیں آمدنی کے مقابلے میں تیزی سے بڑھتی ہیں تو غیر قانونی اور بلیک مارکیٹ وجود میں آتی ہے۔ جو لوگ مہنگی چیزیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ان کیلئے غیر معیاری ، ناقص،نقصان دہ اشیا کے سستے متبادل پر مبنی مارکیٹ سامنے آتی ہے۔ ’’پرائم‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سلمان کے مطابق68ارب ڈالر کی بلیک اور گرے مارکٹیں موجود ہیں جو زیادہ ٹیکسز ٹیرف،ڈیوٹیز کا سبب بن رہی ہیں ۔حالات متقاضی ہیں کہ حکومت بلاتاخیر ایسے اقدامات بروئے کار لائےجن سے تجارت مثبت نتائج کی طرف گامزن نظر آئے۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ غیر قانونی تجارت کی رقم کرپشن،کالے دھن کو سفید کرنے اور ٹیکس چوری کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔جبکہ رشوت اور بھتہ خوری ایسے عناصر ہیں جوپوری معیشت کونقصان پہنچاتے ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین