علم کے بارے میں ہم سنتے آئے ہیں کہ اس کی وسعتیں سمندروں اور صحرائوں جیسی ہوتی ہیں۔ ایک عام چیز جو گھروں، دکانوں، گلیوں اور بازاروں میں دکھائی دیتی ہے بلکہ اڑتی اور جلدی جلدی اڑتی اور پالیسی بدلتی دکھائی دیتی ہے وہ عوام میں مکھی کے نام سے مقبول و مشہور ہے۔ اگرچہ یہ مخلوق دیکھنے کو ایک چھوٹی سی ذات ہے لیکن ہم اس کے بارے میں کتنا علم رکھتے ہیں؟ جس طرح علم کیمسٹری ہے، علم طبیعات ہے اور علم الجبرا وغیرہ ہےاسی طرح علم حیوانات بھی ہے جس میں علم بکریات، علم بھینسیات اور علم خچریات شامل ہے۔ اب کوئی آدمی جو کسی دفتر میں ملازم اور میز پر بیٹھ کر فائلیں دیکھتا ہے اور فیصلے صادر فرماتا ہے تو فائلیں اور دفتر اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جس طرح شاعر کی طبیعت شاعرانہ ہوتی ہے اسی طرح دفتر میں کام کرنے والے شخص کی طبیعت ’’دفترانہ‘‘ ہو جاتی ہے۔ اب اگر کوئی اسے ایک لمبا سا عصا پکڑا کر یہ کہے کہ محترم آپ نے کل سے دفتر نہیں جانا اور بکریوں کا ریوڑ چرانے لے جانا ہے تو وہ ایک دم پریشان ہو جائے گا اور کہہ اٹھے گا کہ وہ بکریوں کی ناز برداری کا عادی نہیں اور نہ اسے عصاپکڑ کر بکریوں کے پیچھے بھاگنے کی ریاضت ہے یعنی اس کی طبیعت بکریانہ نہیں۔ اسی طرح علم بھینسیات ہے۔ ہم کسی بھی دودھ فروش کی دکان کے سامنے موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے پولے سے منہ سے ایک یا دو کلو دودھ کا آرڈر دے دیتے ہیں۔ آپ ذرا دودھ کی مالکن یعنی محترمہ بھینس صاحبہ کی محبوبیوں کا اندازہ لگایئے یعنی بھینس کے پانی پینےکے عمل کو دیکھئے تو آپ کا تصور ہی میں پتہ پانی ہو جائے گا۔ کبھی علم بھینسیات کے ماہر گوالے کو ایک طویل کرتے میں دیکھیں اور اس کی سرگرمیوں پر نگاہ دوڑائیں یعنی بھینسوں کو صبح سے شام تک ہوا خوری کرانا، چرانا، نہلانا اور کھل بنولہ کھلانے جیسے امور کے بارے میں سوچیں تو بندہ علم بھینسیات کے ماہرین یعنی گوالے بھائیوں کی ہمت اور حوصلے کی داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ایک علم ہے، علم عشقیات، عشقیات کا رشتہ اشکیات سے بھی ہے۔ عاشق ایک ایسی ہستی ہے جسے عشق کی ڈگری کے حصول کیلئے کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لینا پڑتا۔ عاشق کی طبیعت میں کچھ قدرتی خوبیاں ہوتی ہیں مثلاً سر کے بال بڑھتے ہیں تو بڑھ جائیں بلکہ وہ وبال بن جائیں توبھی اسے کوئی پروا نہیں ہوتی۔ خلیفہ جس کے پاس جانے سے اس کی انا اور سر کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ عاشق کو جنگلوں بیابانوں میں گھومنا اچھا لگتا ہے۔ عاشق کے کام یوں تو عجیب و غریب ہوتے ہیں لیکن ایک کام بلکہ ایک علم کا وہ ماہر ہوتا ہے یعنی وہ علم عشق پر کلیتاً دسترس رکھتا ہے، اسے اتنا علم ہوتا ہے کہ اسے اپنے محبوب کو کس باغ اور کس پارک میں بلانا ہے۔ عاشق اگر کھاتا پیتا ہو یا مال دار ہو تو وہ محبوب کے لئے پورا باغ یا پارک ریزرو بھی کرا لیتا ہے۔عاشق محبوب کو یہ بتادیتا ہے کہ اس نے کس طرف سے باغ یا پارک میں داخل ہونا ہے۔ عاشق موسموں کے بارے میں بھی پوری معلومات رکھتا ہے، موسم بہار اور موسم برسات کی لطافتوں کابھی اسے مکمل علم ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر عاشق علم پولیسیات سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ ایک خوبی عاشق میں یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ چھپاتا نہیں۔ وہ محبوب کے آگے اپنا کلیجہ، دل اور سر رکھ دیتا ہے۔ ہم نے یہ خوبی آج تک کسی میں نہیں پائی۔ ہم نے یہ خوبی جمہوریت کے عشاق میں پائی ہے۔ جمہوریت کے عشاق جمہوریت کے عالم بھی ہیں۔ جمہوریت کے عاشق اپنی قوم کے سامنے اپنا کلیجہ، دل اور سر رکھ دیتے ہیں۔ ہم کبھی سوچتے ہیں کہ ہر بندہ ہر کام نہیں کرسکتا۔ کسی چیز کا علم ہونا یا بہت سی چیزوں کی معلومات اکٹھی کرنا اور قوم تک پہنچانا بھی ایک فن ہے۔ یہ فن ہماری ناقص رائے میں ہمارے اہل صحافت کو آتا ہے اور ان کا حق بھی ہے۔ اب جمہوریت کے عشاق نے یہ فن اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ جمہوریت کا ایک عاشق کہتا ہے کہ میں فلاں دن بلکہ بروز جمعہ تمام حقائق فلاں باغ میں یا فلاں پارک میں آپ کے سامنے لے آئوں گا۔ ایک عاشق صادق کہتے ہیں کہ مجھے فروٹ منڈی اور سبزی منڈی کے علاوہ سیاسی منڈی کا بھی علم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست دان سیاسی منڈی میں ادرک، پودینہ، دھنیا اور مرچیں خریدنے نہیں جاتے، وہ اپنے کیسوں یا بریف کیسوں میں جمہوریت کی ڈھیریاں خریدنے جاتے ہیں۔ سیاسی منڈی میں بڑی بڑی ڈھیریاں نظر آتی ہیں۔ یہ سینٹ کی ڈھیری ہے، یہ گورنری کی ڈھیری ہے، یہ وزارتوں کی ڈھیریاں ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے اسمبلی میں جناب اسپیکر کہہ کر ارکان اسمبلی علم صحافت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک روز سینٹ کے ایک ممبر بتا رہے تھے کہ ان کی گاڑی چوری ہوگئی ہے۔ یہ خبر دینا اہل صحافت کا کام ہے۔ بڑے سے بڑا ادارہ بھی خبریں نشرکرنے کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ’’یہ ملک نہیں چل رہا‘‘۔ ’’جمہوریت چلی جائے گی‘‘۔ ’’پہلے ادوار میں جمہوریت چلی جاتی رہی ہے‘‘۔ ’’سارا مینڈیٹ میرا ہے‘‘۔ ’’اور کوئی اس پاکستان میں نہ سیاسی پارٹی ہے اور نہ سیاست دان ہے‘‘۔ نہ کچھ کرنا اور نہ کسی کو کرنے دینا ہے۔ اس علم کو کیا نام دیا جائے۔ اسے علم کھچڑیات کہا جاسکتا ہے۔ ویسے اسے آسان لفظوں میں ’’علم اذیت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ عوام کے مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ عوام ووٹ دے کر بھی اذیت پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہم وہ کام کریں جو ہمارے حصےمیں آیا ہے۔