• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریضوں کو آلودہ خون کی فراہمی اسکینڈل، 27000 افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہوگئے

لندن (پی اے) انگلینڈ میں مریضوں کو آلودہ خون کی فراہمی کا ایک اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں1970سے 1991کے دوران برطانیہ کے کم 27,000 افراد ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوگئے۔ بی بی سی کے مطابق مزید 1,700افراد بھی اس مرض کاشکار ہوئے تھے لیکن اب تک ان کی تشخیص نہیں کی جا سکی ہے۔ ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا اگر علاج نہ کرایا جائے تو وہ لیور کی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور یہ صورت حال جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، اسی لئے ہیپاٹائٹس سی کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں ابتدا میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں رات کو پسینہ آنا، دماغ ماؤف ہوجانا، جلد پر خارش ہونا اور تھکاوٹ کا احساس شامل ہے لیکن ہرسال ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ کوئی نہ کوئی مریض جگر کے سورائسس سے متاثر ہوکر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے مریضوں میں کینسر کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں کم وبیش 12,800افراد نے این ایچ ایس سے ایک ہفتہ کے دوران گھر پر ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص کیلئے کٹس طلب کئے ہیں جبکہ پورے اپریل کے دوران مجموعی طورپر 2,300 افراد نے یہ کٹس طلب کی تھیں۔ چیرٹی کا کہنا ہے کہ اسے پورے برطانیہ سے بڑی تعداد میں فون موصول ہو رہے ہیں، جن میں مزید ایڈوائس اور ٹیسٹ سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں۔ عوام کی جانب سے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ہیپاٹائٹس سی کی ہلاکت خیزی سے متعلق زیادہ شعور آچکا ہے۔ چیرٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرانے والے جن لوگوں کا نتیجہ منفی آتا ہے، انھیں دماغی سکون مل جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی تلاش ضروری ہے جو ہیپاٹائٹس سی کے وائرس سے متاثر ہیں لیکن اس سے واقف نہیں ہیں تاکہ ان کا موثر علاج کیا جاسکے۔سنڈے ٹائمز نے خبر دی ہے کہ چانسلر جیریمی ہنٹ جلد ہی آلودہ خون کے اسکینڈل سے متاثرہ افراد کیلئے ہرجانے کے ایک پیکیج کا اعلان کریں گے، جس پر کم وبیش 10بلین پاؤنڈ خرچ ہوں گے۔ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جیریمی ہنٹ نے کہا کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں آلودہ خون لگائے جانے کے سبب ہلاک ہونے والے ایک شخص سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔ آلودہ خون سے متعلق انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کی جانب سے اس حوالے سرکاری طور پر اعلان کئے جانے کا امکان ہے۔ خون کی آلودگی کے اسکینڈل سے متعلق انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم وبیش 1,700 مریضوں کی تشخیص نہیں کی جاسکی ہے۔ سرکاری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت اور این ایچ ایس ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کا مناسب طورپر پتہ نہیں چلاسکے۔ بی بی سی نے الزام لگایا ہے کہ حکام ہسپتالوں کے لیور سے متعلق یونٹس میں پیش آنے رکاوٹوں پرتنقید سے بچنے کیلئے ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کے بارے میں آگہی کو محدود کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے ٹیسٹ کیلئے محدود وقت رکھا گیا ہے کیونکہ این ایچ ایس کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے، اس حوالے سے متعدد لوگوں نے ہیپاٹائٹس سی کے ٹیسٹ کی کٹس طلب کرنے کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ حکومت اس مہلک مرض کے وائرس کا پتہ چلانے کیلئے ہر ایک کو ٹیسٹ کی سہولت کیوں فراہم نہیں کررہی ہے۔ بی بی سی کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ آلودہ خون لگائے جانے کے سبب کم وبیش 3,000 افراد ہلاک ہوچکےہیں۔ آلودہ خون کی فراہمی کو این ایچ ایس کی تاریخ میں علاج معالجے کے حوالے سے سب سے بڑا اسکینڈل تصور کیا جارہا ہے۔ بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ 1970 سے 1990کے دوران برطانیہ میں کم وبیش 30,000 افرادآلودہ خون کی فراہمی کی وجہ سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوئے، ان لوگوں میں اکثریت ہیموفیلیا کے مریض تھے، جس کی وجہ سے انھیں خون چڑھانے کی ضرورت پیش آئی۔ برطانیہ میں خون اور اس سے متعلق دیگر پراڈکٹس امریکہ سے لائی گئی تھیں او ر امریکہ میں یہ خون منشیات کے عادی افراد اور قیدیوں کا عطیہ کردہ تھا۔ اس کے باوجود 1989 تک ہیپاٹائٹس سی کا پتہ نہیں چلایا جاسکا۔

یورپ سے سے مزید