صفحات: 860، قیمت: درج نہیں
ملنے کا پتا: مکتبہ بیّنات، جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علّامہ محمّد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی۔
فون نمبر: 34927233 - 021
مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتیؒ (1929ء-2020ء) ممتاز عالمِ دین اور بلند پایہ محقّق تھے۔دارالعلوم، دیوبند( بھارت) سے دورۂ حدیث(درسِ نظامی) کی تکمیل کی۔ وہاں اُنھیں مولانا حسین احمد مدنیؒ جیسے مشاہیر سے اکتساب کا موقع ملا اور مولانا مدنیؒ کے ہاتھ پر تصوّف کے چشتی سلسلے میں بیعت بھی کی، اِسی لیے اپنے نام کے ساتھ چشتی لکھا کرتے تھے۔والد، مولانا عبدالرّحیم خاطر جے پوری عالمِ دین، سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں صاحبِ اجازت، شاعر اور اپنے دَور کے معروف خطّاط تھے۔
مولانا عبدالحلیم چشتیؒ نے کراچی یونی ورسٹی سے 1967ء میں اسلامیات اور 1970ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا۔ بعدازاں، 1981ء میں یہیں سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور وہ اِس مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنے والے پہلے پاکستانی تھے۔اُنھوں نے عہدِ رسالتﷺ سے عباسی دَور تک کے کتب خانوں سے متعلق اپنے مقالے میں چھے سو کتب سے استفادہ کیا اور تیس ہزار سے زاید حوالے درج کیے۔ ریڈیو پاکستان میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے معاون کے طور پر دو سال کام کیا۔بعدازاں’’ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ سے منسلک ہوئے۔
لیاقت نیشنل لائبریری میں سرکاری ملازمت کی۔ پھر کراچی یونی ورسٹی کے اورینٹل سیکشن میں ملازم ہوگئے۔ یونی ورسٹی کی مسجد میں خطیب اور مشیرِ مذہبی امور بھی رہے۔ اِسی دَوران رخصت لے کر نائجیریا چلے گئے، جہاں’’ بیرو یونی ورسٹی‘‘ میں سینئر کیٹلاگر کی حیثیت سے10 سال خدمات انجام دیں۔مختلف مدارس میں اعزازی طور پر حدیث و فقہ کی تعلیم دیتے رہے، پھر جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن سے تخصّص فی الفقہ کے نگران کے طور پر منسلک ہوئے۔
جب اُن کے برادرِ کبیر، مولانا عبدالرشید نعمانیؒ تخصّص فی الحدیث کی سربراہی سے سُبک دوش ہوئے، تو مولانا عبدالحلیم چشتی نے اُن کی جگہ لی اور زندگی کے آخری دن تک (تقریباً30 سال) یہ ذمّے داری نبھاتے رہے۔ اُن کی زیرِ نگرانی علمِ حدیث کے مختلف پہلوؤں پر دو سو کے قریب مقالے تحریر کیے گئے۔اُن کے قلم سے مختلف موضوعات پر دو درجن کے قریب کتب منظرِ عام پر آئیں۔جامعۃ العلوم الاسلامیہ، کراچی سے شایع ہونے والے ماہ نامے،’’ بیّنات‘‘ نے ڈاکٹر عبدالحلیم چشتیؒ کی حیات و خدمات پر یہ خصوصی نمبر شایع کیا ہے اور بلاشبہ اُن کے شایانِ شان شایع کیا ہے۔
واضح رہے، ڈاکٹر صاحبؒ اِس جریدے کے مدیر بھی رہے۔اِس اشاعتِ خصوصی میں92 مضامین شامل ہیں، جن کے لکھنے والوں میں نام وَر علماء، اساتذہ، محققّین، ڈاکٹر صاحب مرحومؒ کے شاگرد، خاندان کے افراد اور دیگر شامل ہیں۔ اِس طرح کی خصوصی اشاعتوں میں عام طور پر ایک ہی طرح کا مواد بار بار دُہرایا جاتا ہے، مگر مرتّبین نے اِس جریدے کو بہت مہارت سے ایڈٹ کیا ہے، جس کے باعث ڈاکٹر صاحبؒ کی زندگی کے تقریباً تمام ہی پہلو سامنے آ گئے ہیں۔
صاحب زادے، ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے اپنے30 صفحات پر مشتمل مضمون میں والدِ محترم کی زندگی کے مختلف گوشوں سے روشناس کروایا ہے، جب کہ اِس میں مولانا عُمر انور بدخشانی کا چشتی صاحبؒ کی تحریروں سے مزیّن’’ آپ بیتی‘‘ کے عنوان سے ایک شان دار انتخاب بھی شامل ہے۔ڈاکٹر صاحبؒ قرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے حفظ کا خاص ذوق رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اپنے بارہ بچّوں میں سے چار بیٹیوں اور تین بیٹوں کو قرآنِ پاک حفظ کروایا، جب کہ اُن کے بچّوں کے کئی بچّے بھی حافظِ قرآن ہیں۔
مضمون نگاروں نے ڈاکٹر صاحبؒ کے وسعتِ مطالعہ، تحقیقی ذوق، تواضع، سادگی، طلبہ سے شفقت و محبّت جیسے اوصاف کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔اُن کے گھر کے کئی کمرے نایاب کتب سے بَھرے ہوئے تھے، جنھیں کئی ادارے خطیر رقم کے عوض خریدنے کے خواہش مند تھے، لیکن اُنھوں نے یہ ذخیرہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل جامعۃ العلوم الاسلامیہ، کراچی کو عطا کردیا۔
چوں کہ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتیؒ کی شخصیت ایک ادارے کی مانند تھی، اِس لیے بھی یہ اشاعت ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔اِس میں دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ عام افراد و محقّقین کے استفادے کے لیے بھی وافر مواد میّسر ہے۔