مصنّف: محمود شام
صفحات: 632، قیمت: 3000 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔
فون نمبر: 0515101 - 0300
محمود شام کا شمار مُلک کے صفِ اوّل کے صحافیوں، ادیبوں اورمدیران میں ہوتا ہے۔نصف صدی سے زاید پر پھیلے اِس درخشاں سفر میں اُنھیں تقریباً تمام ہی سیاسی قائدین سے ملاقاتوں اور گفتگو کا موقع ملا۔اِن ملاقاتوں کے دوران اُنھوں نے سیاسی و حکومتی شخصیات سے معرکۃ الآراء انٹرویوز بھی کیے، جو مختلف اخبارات و جرائد کا حصّہ بنے۔
بعدازاں اِن انٹرویوز کو مختلف کتب کا رُوپ دیا گیا اور اُن کی یہ کتب ہاتھوں ہاتھ لی گبھی ئیں کہ اِن میں مُلکی تاریخ کے اہم ترین ابواب محفوظ کردئیے گئے تھے۔ محمود شام کی زیرِ نظر کتاب39 شخصیات کے اُن52 انٹرویوز پر مشتمل ہے، جو 1969ء سے 1977ء کے درمیان کیے گئے۔
شام صاحب کا جن شخصیات سے مکالمہ ہوا، اُن میں مولانا بھاشانی، ذوالفقار علی بھٹّو، خان عطاء الرّحمٰن، فضل القادر چوہدری، خان عبدالقیوم خان، شیخ مجیب الرّحمٰن، مفتی محمود، طارق علی خان، نورالامین، عبدالولی خان، اصغر خان، چوہدری خلیق الزمان، جی ایم سیّد، محمود علی، مولوی فرید احمد، پروفیسر غلام اعظم، مولانا غلام غوث ہزاروی، عبدالصمد اچکزئی، رضیہ تمیز الدّین، بے نظیر بھٹّو، میجر جنرل سرفراز، شاہ احمد نورانی، کوثر نیازی، ڈاکٹر مبشر حسن، حیات محمّد خان شیرپاؤ، ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، بیگم نصرت بھٹّو، عبدالحفیظ پیرزادہ، معراج محمّد خان، ائیر مارشل نور خان، میاں طفیل محمّد، شیخ عبداللہ، خان آف قلّات، نواب اکبر بگٹی، حنیف رامے، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، سردار شیر باز مزاری اور صاحب زادہ فاروق علی خان شامل ہیں۔
ان میں سے بعض شخصیات کے ایک سے زاید انٹرویو کتاب کا حصّہ بنائے گئے ہیں۔ یہ انٹرویوز ایک ایسے دَور میں کیے گئے،جب مُلک فوجی آمریت، سازشی جمہوریت اور آئینی و اقتصادی بحران سے گزر رہا تھا۔ مُلک کو آزاد ہوئے 25 برس ہونے کو تھے، مگر اب تک اُس کی سمت ہی کا تعیّن نہیں ہوسکا تھا اور طاقت کے سرچشمے کسی کٹی پتنگ کی مانند اُسے اپنی اپنی جانب غوطے دِلا رہے تھے۔
ایسے میں 29 سالہ محمود شام ہفت روزہ’’ اخبارِجہاں‘‘ کی طرف سے سیاسی قائدین سے دس سوالات کے جوابات لینے نکلے، اُن کے بقول’’زیادہ تر نے سطحی باتیں ہی کیں کہ ہمارے ہاں ہوم ورک کا رواج ہی نہیں ہے‘‘ تاہم، اِس کے باوجود وہ بہت کچھ اگلوانے میں کام یاب رہے۔ یوں تو اِس کتاب میں شامل تمام انٹرویوز ہی پڑھنے اور غور و فکر کرنے کے قابل ہیں، تاہم اُن قائدین کی گفتگو آج کے حالات میں بھی’’ تازہ‘‘ ہے، جنھیں عام طور پر قوم پرست یا علیٰحدگی پسند قرار دیا جاتا ہے۔ اِسے بدقسمتی قرار دیں یا کوئی اور مناسب لفظ استعمال کرلیں کہ اِن رہنماؤں نے پاکستان کی ابتدائی تین دہائیوں کے حالات کی بنیاد پر مُلک کے مستقبل کا جو تجزیہ کیا تھا، وہ تقریباً درست ہی ثابت ہوا۔
آمریت نے مُلک کو جس طرح تقسیم کیا، جمہوریت بے اعتبار ہوئی، مختلف قومیتوں کے درمیان خلیج بڑھی، مایوسی کی فضا پروان چڑھی، ادارے تنزّلی کا شکار ہوئے اور سماج میں ٹُوٹ پُھوٹ ہوئی، اِن باتوں کی پیش گوئی مدّتوں پہلے کردی گئی تھی، مگر اُس وقت کسی نے ان پر کان دھرے اور نہ آج کوئی اصلاح پر آمادہ ہے۔’’جب قائدِ اعظم پر قاتلانہ حملے کی خبر آئی، تو جی ایم سیّد سندھ اسمبلی میں بے ہوش ہوکر گر پڑے۔‘‘( صفحہ 196) سوال یہ ہے کہ پھر جی ایم سیّد باقی زندگی جیل یا نظربندی میں گزارنے پر مجبور کیوں ہوئے؟
شیخ مجیب نے اپنے انٹرویو میں مُلک کے آئینی، سیاسی اور معاشی بحران کے ضمن میں جو باتیں کیں، وہی باتیں آج یہاں کُھلے عام کی جا رہی ہیں، پھر وہ غیر کیوں ٹھہرے؟ ولی خان، اکبر بگٹی، مولانا بھاشانی نے بھی ایسی کوئی اَن ہونی بات نہیں کی، جو آج سُننے کو نہ ملتی ہو، پھر وہ دیوار سے کیوں لگائے گئے؟ یہ سوالات اِس لیے اہم ہیں کہ اِن کے جوابات دئیے بغیر بہت سے معاملات بہتر نہیں کیے جاسکتے۔کتاب کا آخری انٹرویو ذوالفقار علی بھٹّو سے مختصر گفتگو پر مبنی ہے، جو جولائی 1977ء میں اُن کی مَری میں حراست کے دَوران لیا گیا۔
اِسے پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے، جیسے وہ آج کی سیاسی صُورتِ حال پر گفتگو کر رہے ہوں۔ اسٹیبلشمینٹ کا وہی وریّہ، ضیاء کے حامی سیاسی رہنماؤں پر ویسے ہی الزامات، جیسے آج کے حکومتی زعماء پر لگ رہے ہیں، کرپشن، انتخابی دھاندلی اور گرفتاری کی وہی باتیں، گویا پچاس برس بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ محمود شام بھرپور جوانی میں یہ سوال لے کر نکلے تھے کہ’’ ہم پاکستانی ،قوم کب بنیں گے؟‘‘ اور اب سفید بالوں کے ساتھ بھی سب سے یہی پوچھ رہے ہیں’’ہم پاکستانی، قوم کب بنیں گے؟‘‘