مصنّف: ظفر محمود
صفحات: 368، قیمت: 1800 روپے
ناشر: بُک کارنر جہلم۔
فون نمبر: 4440882 - 0314
ظفر محمود کیڈٹ کالج حسن ابدال، گورنمنٹ کالج لاہور، مانچسٹر یونی ورسٹی، برطانیہ، آرتھر ڈی لٹل انسٹی ٹیوٹ، بوسٹن، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، واشنگٹن اور ہارورڈ یونی ورسٹی، امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں۔استنبول میں قونصل جنرل رہے، جب کہ چھے مختلف وزارتوں میں بطور وفاقی سیکریٹری خدمات انجام دیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن اور واپڈا کے چیئرمین مقرّر کیے گئے۔ سرکاری فائلز پر قلم چلانا تو فرضِ منصبی تھا، جب کہ اندر کا ادیب بھی اُن سے مختلف شہہ پارے تخلیق کرواتا رہا۔ کالا باغ ڈیم سے متعلق اردو اور انگریزی میں حقائق سامنے لائے، تو افسانوں کے مجموعے’’دائروں کے درمیاں‘‘کی صُورت معاشرے کو جھنجوڑا۔
پھر’’ سرکار کی رہ گزر سے‘‘ کے ذریعے اقتدار کی غلام گردشوں میں جنم لینے والی ہوش رُبا داستانیں اور چشم کُشا تجربات قارئین کے ساتھ شئیر کیے۔1998ء میں ناول’’ 23 دن‘‘ نے علمی و ادبی حلقوں کو اُن کی جانب متوجّہ کیا اور اب اُن کا دوسرا ناول’’فرار‘‘ بھی دادِ تحسین وصول کر رہا ہے، جو کہ اِس کا حق بھی ہے۔ مصنّف کا اِس ناول سے متعلق کہنا ہے کہ’’اِس کہانی کا مرکزی کردار’’ دلدار شاہ‘‘ گزشتہ چار دہائیوں سے میرے حافظے سے ایک آسیب کی طرح چمٹا رہا۔اس کے بزرگوں کو انگریز سرکار نے سب سے بڑی جاگیر، غالباً تین ہزار پانچ سو ایکڑ عطا کی تھی۔
غیر مُلکی آقاؤں کے اعتماد اور روحانی گدی کی سرکاری سرپرستی سے خاندان کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا۔ سرکاری نوکری کے دوران’’ دلدار شاہ‘‘ سے رابطہ ہوا۔ وہ پابندِ شریعت تھے۔ شوق تھا تو نازنینِ خوش اندام کا۔ اُنھیں کسی دوشیزہ کے حُسن و جمال کی بھنک ملتی، تو دل بے تاب اور کارندے حرکت میں آجاتے۔
علاقے میں ایک سَر پِھری لڑکی کی سرکشی کا قصّہ مشہور تھا۔ بغاوت پر آمادہ خُوب صُورت لڑکی کی سینہ بہ سینہ داستان اور روایت کے تانے بانے سے جُڑی اِس کہانی میں قارئین کو مُلکی سیاست، صحافت اور بیوروکریسی کا مکروہ گٹھ جوڑ اور مقدّس چہرے بے نقاب ہوتے نظر آئیں گے۔‘‘ ہمارے ہاں صحافت، سیاست اور افسر شاہی ہمیشہ سے طاقت کی علامت رہی ہیں۔ ٹی وی چینلز کے بعد میڈیا کی وسعت اور اثر انگیزی نے صحافت کی طاقت میں مزید اضافہ کیا ہے۔
حالیہ عرصے میں طاقت کے اِن تینوں ستونوں کے باہمی تعلق اور مُلک و قوم پر اِس کے اثرات کے ضمن میں ہونے والی بحث میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دنوں محمود شام کے ناول’’ انجام بخیر‘‘ کا یہی موضوع تھا اور ظفر محمود نے اپنے ناول’’ فرار‘‘ میں اِسی تکون کی مختلف جہتوں پر قلم آرائی کی ہے۔اِس ناول میں’’ دلدار شاہ‘‘ جاگیرداروں، سیاست دانوں اور گدی نشینوں کا نمایندہ ہے، جب کہ مونا ایک نیوز چینل کی رپورٹر ہے، جو دلدار شاہ کے ظلم و ستم کے خلاف مظلوموں کی آواز بن جاتی ہے۔ کہانی کی بُنت میں سوہنی، دُلاری، آرزو، شبنم، راحیل، آصف، رزای اور کالے خان جیسے کردار بھی شامل ہیں۔دلدار شاہ14 برس کی سوہنی کو زبردستی اپنے نکاح میں لے لیتا ہے اور مزاحمت پر اُس کے منگیتر کو قتل کروا دیتا ہے۔
وہ ایک وقت میں چار بیویاں اپنے نکاح میں رکھتا ہے،جب کہ نئی شادی رچانے کے لیے اُن میں سے کسی ایک کو طلاق دے دیتا ہے۔ اِس طرح اُس نے زور زبردستی کے بہت سے نکاح کیے، جن کی تفصیل ناول میں موجود ہے۔ سوہنی خوف زدہ ہونے کی بجائے اُس کے سامنے ڈٹ جاتی ہے اور بالآخر 10 سال کی جدوجہد کے بعد عدلیہ سے اُس کے حق میں فیصلہ آتا ہے اور پھر اُسی روز عدالت کے باہر کئی افراد قتل ہوتے ہیں، جن میں دلدار شاہ بھی شامل ہوتا ہے۔چوں کہ مصنّف اعلیٰ ترین سرکاری عُہدوں پر فائز رہے ہیں، اِس لیے بیورو کریسی کے طور طریقے اور اُس کا سیاست دانوں سے گٹھ جوڑ اُن سے ڈھکا چُھپا نہیں۔
اُنھوں نے اپنے اِسی تجربے، مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر کسی ماہر طبیب کی مانند مُلکی سیاست اور معاشرت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔البتہ ناول میں خواتین کو بہت مضبوط دِکھایا ہے، جو طاقت وَروں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتی ہیں۔ ظفر محمود نے ایک مقام پر لکھا ہے’’دلدار شاہ کو یاد آیا کہ پائیڈ پائپر کی سات سو سال پرانی جرمن حکایت سُنانے کے بعد پروفیسر صاحب نے کہا تھا کہ’’ ہر سیاست دان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی دُھن بجائے کہ لوگ آنکھیں بند کرکے اُس کے پیچھے چل پڑیں۔‘‘تو شاید اُن کی یہی خواہش ہے کہ لوگ، اِس’’ فرار‘‘ کے ذریعے اِس طرح کی غلامانہ سوچوں اور روایات سے فرار حاصل کرلیں۔