پڑوسی ملک ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی وزیرخارجہ اور دیگرساتھیوں کے ہمراہ ہیلی کاپٹر حادثے میں المناک شہادت نے ایران سمیت پوری دنیا کو ہِلا کر رکھ دیا ہے۔ٹی وی چینل پر ایرانی صدر سے متعلق بریکنگ نیوز دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے فقط ایک ماہ قبل کے مناظر گھومنے لگے جب وہ دورہ پاکستان پر آئے تھے اور انکے اعزاز میں سرکاری سطح پرانکے شایان شان تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا، وہ ایک ایسے نازک موقع پر پاکستان آئے تھے جب اسرائیل ایران کشیدگی کی بناپر دنیا بھر کی نظریں ان پر مرکوز تھیں، چند ماہ قبل پاک ایران سرحدی کشیدگی کے تناظر میں بھی انکے دورے کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی تھی، صدر رئیسی نے پاک سرزمین پر منعقدہ ہر تقریب میں دونوں پڑوسی برادر اسلامی ممالک کو قریب لانے کے عزم کا اظہار کیا، ایرانی صدر نے پاکستانی عوام سے خطاب کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا، تاہم حفاظتی انتظامات کی بنا پر یہ ممکن نہ ہوسکا، ایرانی صدر کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین بہت سے اہم معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے۔صرف ایک ماہ بعدیہ خبر سنکر رنجیدہ ہوں کہ عالمی پائے کے لیڈر اپنے قابلِ اعتماد ساتھیوں سمیت دارِ فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کرگئے ہیں۔بلاشبہ، ابراہیم رئیسی کی شہادت نے عالمی برادری کوششدر کردیا ہے، اس حوالے سے امریکہ، روس، سعودی عرب، ترکیہ اور انڈیا سمیت عالمی ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے، وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے سانحہ کی اطلاع ملتے ہی اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے کا دورہ کیا۔ہیلی کاپٹر حادثے کی خبرمنظرعام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازاربھی گرم ہوگیا، اس حوالے سے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے، حادثے کی تین ممکنہ وجوہات میںہیلی کاپٹرمیں تکنیکی خرابی، زمینی حالات اور موسمی صورتحال شامل ہیںجبکہ بیرونی مداخلت کا امکان بھی زبان زدعام ہے، تاہم ایرانی حکام نے ابھی تک سرکاری طور پر حادثے کی وجوہات کاباضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ چند سال میں مشرق وسطیٰ جس ہنگامہ خیز پیشرفت کا سامنا کررہا ہے، اورجس تیزی سے علاقائی منظر نامہ بدل رہا ہے، اس میں ابراہیم رئیسی کی زیرقیادت ایران کاقائدانہ کردار بہت کلیدی نوعیت کا تھا، رئیسی کے دورِ صدارت میں نظریاتی حریف سعودی عرب سے دوطرفہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی، ایران سفارتی سطح پر چین اور روس کے قریب آیا، یوکرائن جنگ میں ماسکو کو عسکری حمایت فراہم کی، مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرائن جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرون طیارے فیصلہ کُن کردار ادا کررہے ہیں، رئیسی کے دور اقتدار میںطالبان کے زیرانتظام افغانستان کیلئے ایرانی تیل کی برآمدات میں اضافہ ہوا اور سب سے اہم امر، غزہ تنازع میںایران نے فلسطینی عوام کی کھُل کی حمایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایرانی صدر کی شہادت کے بعد سب سے بڑا سوال یہی اُٹھ رہا ہے کہ ابراہیم رئیسی کے بعد اب ایران کا مستقبل کیا ہوگا اور خطے پر کیا اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے؟ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم رئیسی ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے طاقتور صدر سمجھے جاتے تھے،تاہم اسلامی جمہوریہ میں حتمی فیصلہ سازی کا اختیار سپریم لیڈر کے پاس ہے، رئیسی کو ایران کے85سالہ سپریم کمانڈرآیت اللہ خامنہ ای کے نظریاتی جانشین کا درجہ حاصل تھا، کہا جارہا تھا کہ وہ ایران کے اگلے ممکنہ سپریم کمانڈر کا اعلیٰ عہدہ سنبھالنے کیلئے موزوں ترین ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ ہیلی کاپٹر حادثہ ایران کی قدامت پسند پالیسیوں کے تسلسل اور خامنہ ای کی سیاسی و مذہبی وراثت کیلئے ایک دھچکا ثابت ہوا ہے،تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مغربی میڈیا گزشتہ چند دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے زوال پذیر ہونے کی قیاس آرائیاں کرتا آرہاہے،میڈیا پر گاہے گاہے ایسی رپورٹس منظرعام پر آتی رہتی ہیں جن میں مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق چند برسوں تک ایران امریکی پابندیوں کی تاب نہیں لاسکے گا، تاہم یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ ایرانی قوم ہر چیلنج سے نبردآزما ہونے کے بعد پہلے سے مزید مضبوط بن کر اُبھری ہے،اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کا عادی ہو گیا ہے اور حالیہ سانحہ کوبھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں،اپنے اصولی موقف کی خاطر ایرانی قوم ایک عرصے سے قربانیاں پیش کررہی ہے،اگرچہ صدر رئیسی اور وزیر خارجہ کی ناگہانی موت سب کیلئے مکمل طور پر غیر متوقع تھی لیکن ایران نے جس بہترین انداز میں اپنے لیڈر کو کھونے کے بعد کے حالات کو سنبھالنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ، وہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ رئیسی کی شہادت کی باضابطہ تصدیق ہونے سے قبل ہی آیت اللہ نے یقین دہانی کرادی تھی کہ ایرانی عوام پریشان نہ ہوں، ملکی معاملات میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی سپریم کمانڈر کی جانب سے فوری طور پر نائب صدرمحمد مخبر کو قائم مقام صدر نامزد کرتے ہوئے پچاس دنوں کے اندر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا گیا جبکہ علی باقری نے وزارت خارجہ کا منصب سنبھال لیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری سیاسی چیلنج قبل از وقت صدارتی انتخابات کا انعقاد ہے،نئے صدر کو خطے کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر مشکل حالات کا سامنا ضرورکرنا پڑسکتا ہے لیکن ایران کی حالیہ پالیسیوں کو بریک لگنے یا انکے ریورس ہونے کا کوئی امکان نظرنہیںآتا۔ آج پوری پاکستانی قوم ایران کے عوام کے ساتھ مشکل کی اس گھڑی میں شانہ بشانہ کھڑی ہےاور ابراہیم رئیسی کی پاکستان اور ایران کوقریب لانے کیلئے خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ تاہم اگرہیلی کاپٹر حادثے کے سلسلے میںکسی قسم کی بیرونی مداخلت کے ثبوت ملتے ہیں تو پھر پاکستان سمیت پوری دنیا کو نہایت خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)