پروفیسر خالد اقبال جیلانی
یوں تو کسی بھی کام کے مقاصد کے تعین کے سلسلے میں اکثر لوگ کج فہمی کا شکار ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ، لیکن تعجب و حیرت اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم بہ حیثیت امتِ مسلمہ جہاں اپنے مقصد زندگی سے نا آشنا ہیں، وہاں اسلامی عبادات کے مقاصد سے بھی ناواقف ہیں اور محض رسمی عبادات میں مشغول ہیں جو ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔
مومن کی زندگی اور اسلامی عبادات کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول بتایا گیا، اکثر مسلمان اس بات کو جانتے بھی ہیں اور اپنی زبان سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں، لیکن ان کی روشںِ زندگی یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اسے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہی نہیں، بلکہ بعض مسلمانوں کے قول و فعل سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے ہی نہیں اور انہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے ، حساب کتاب اور جزا و سزا سے کوئی سابقہ ہی نہیں پڑنے والا۔
کسی بھی عبادت کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو وہ مل جائے جس کے لئے اس نے وہ عبادت کی ہے۔ ہم بہت سی عبادات اور دینی مناسک ادا کرتے ہیں جن کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ مقاصد اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ نے طے کیے ہیں۔ مثلاً نماز کے بارے میں کہا گیا ’’بے شک، نماز برائی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہی ہے‘‘۔ (سورۂ عنکبوت)یعنی نماز پڑھنے والے سے بے حیائی اوربرائی صادر نہیں ہوتی۔
زکوٰۃ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ زکوۃ ادا کرنے سے مال پاک ہو جاتا ہے اور معاشرہ خوشحال ہوتا ہے۔ ‘‘ روزے کے بارے میں فرمایا گیا ’’ یہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے‘‘۔(سورۃالبقرہ) اسی طرح مقاصد حج کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حج کیا اور اس سے دورانِ حج کوئی فحش بات، بدکلامی اور گناہ نہیں ہوا تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہو کر اپنے گھر اس طرح ) لوٹتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا‘‘۔ (حدیثِ نبوی ﷺ)
یہ دن ،یہ مہینے ، یہ موسم حج کا موسم اور حج کے دن و مہینے ہیں۔ امت محمدیہ کے لاکھوں افراد دنیا کے کونے کونے سے فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے کشاں کشاں حرم کعبہ، شہر مکہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان زائرینِ حرم کو یہ مقدس سفر اور عظیم عبادت مبارک ہو، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ زائرین حرم، حجاج کرام کو اس سعی میں اپنی تمام تر توجہات مقاصد ِحج اور زیاراتِ کعبہ پر رکھنی ہوں گی۔ اوپر ہم نے بیان کیا کہ حج کرنے والا گناہوں سے ایساپاک ہو جاتا ہے کہ جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ یہی مقاصد حج میں سے سب سے بڑا مقصد ہے۔
ہم جب کسی چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی دعوت پر اس کے گھر جا کر مہمان بنتے ہیں تووہ میزبان اپنے مہمانوں سے ملاقات ضرور کرتا ہے اور واپسی پر وہ اپنے مہمانوں کو کچھ نا کچھ تحائف سے ضرور نوازتا ہے، زائرین حرم آپ اس کائنات کے خالق و مالک تمام انسانوں کے رب اور معبود اللہ جل جلالہ کی دعوت پر اس کے گھر مہمان بننے جارہے ہیں تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے ملاقات نہ کرے اور واپسی پر آپ کو کچھ تحائف دے کر واپس نہ لوٹائے، بس، گناہوں سے مغفرت و پاکی، بے حساب اجر و ثواب کے ساتھ وہ آپ کو جنت الفردوس میں داخلے کے تحفے کے ساتھ واپس لوٹائے گا، لیکن یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا کہ جب آپ کی نظر اس مقصد پر ہوگی کہ مجھے گناہوں سے پاک ہو کر جنت میں داخلے کے سند کی ساتھ واپس لوٹنا ہے،جب آپ میں جنت کو پانے کی طلب ہوگی اور اس سب کے ساتھ اپنے میزبان، اللہ رب العالمین سے شرف ِ ملاقات و دیدار کا شوق آپ کے اندرموجزن ہوگا۔ حج کی تمام عبادتوں اور مناسک کے مقاصدِ خداوندی اسی وقت حاصل ہوں گے، جب انہیں حاصل کرنے کا آپ عزم وارادہ اور پرخلوص نیت کریں گے۔
ہم امت مسلمہ میں ایک بہت اور بڑی کثیر تعداد کونماز پڑھتا دیکھ رہے ہیں لیکن معاشرے اور ماحول میں پھر بھی برائی اور گناہ عام ہے۔ ہر سال اربوں روپے زکوٰۃ کے نکالے جانے کی باوجود ہاتھ پھیلانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روزے کے اثرات تو اب گویا رمضان میں بھی نظر نہیں آتے، رمضان کے بعد کیا نظر آئیں گے؟ اس لئے رمضان کے بعد مسلم معاشرے میں تقویٰ کی جو بہار آنی تھی، نہیں آتی۔
اسی طرح حج پر جانے والے بھی جب واپس آتے ہیں ، تو وضع قطع کے حوالے سے بظاہر ان میں کئی تبدیلیاں نظر آتی ہیں ، کہ سر منڈوائے، ہاتھوں میں تسبیح اور سر پر ٹوپی ہے، مخصوص عربی لباس زیب تن ہوتا ہے، رومال کندھے پر ہوتا ہے۔ ساتھ میں اس قدر سامان ہوتا ہے کہ کسٹم کے کاؤنٹر پر ’’جرمانہ‘‘ دینا پڑتا ہے، لیکن باطن میں فرق نظر نہیں آتا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے قبولیتِ حج کی علامت یہی بتائی کہ ’’بندہ حج کے بعد اگر ہدایت اور تقویٰ کے راستے پرگامزن رہے تو اس کا حج قبول ہوگیا‘‘۔
اے زائرین حرم ! یہ احرام کا لباس بے مقصد نہیں پہنایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کو سلے ہوئے کپڑوں سے نفرت نہیں اور نہ ہی اس نے سلے کپڑے حرام کئے ہیں۔ سفید رنگ کے بغیر سلے کپڑوں کو پہننا لازمی کرنا کوئی فضول رسم نہیں ہے، بلکہ لاکھوں کے مجمع میں یک رنگی پیدا کر کے یہ باور کرانا اور احساس دلانا ہے کہ تمہارا رنگ ایک ہی ہے، تم سب ’صبغۃاللہ ‘ اللہ کے رنگ میں رنگ دیئے گئے ہو۔ کائنات کے تمام رنگ اللہ کے رنگ ہیں اور دنیا کے رنگ اللہ کے رنگ کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے، تم ان کپڑوں میں ہو، جو قبر میں تمہارے ساتھ جائیں گے۔ یہ کفن ہے گویا تم نے یہ اعلان کردیا ہے کہ ہم اللہ کے حضور حرم کعبہ میں ہی نہیں، حشر کے میدان میں بھی حاضر ہونے کو تیار ہیں۔
یہ دو بن سلے کپڑے فقیرانہ لباس ہیں اور یہ بتارہے ہیں کہ ہم اللہ کے در کے فقیر ہیں ۔ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں مال و متاع کی کثرت بے معنی ہے صرف دو بن سلے کپڑوں میں بھی زندگی گزر سکتی ہے۔ یہ لباس حاجیوں میں قناعت اور کفایت شعاری کی صفت پیدا کرنا چاہتا ہے۔
لبّیک اللّٰھُمّ لبّیک کی صدائیں یوں ہی بے معنی نہیں لگوائی جاتیں، بلکہ یہ شعور پیدا کرنے کے لئے لگوائی جاتی ہیں کہ جس طرح اللہ کی پکار پر ہم نے آج لبیک کہا ہے، ساری زندگی اسی طرح لبیک کہیں گے۔ اب کبھی حیّ علیٰ الصلوٰۃ کی آواز کو نظر انداز یا سنی ان سنی نہیں کریں گے۔ اب اللہ کے دین کی بقا ، سربلندی اور غلبہ کے لیے جب ضرورت ہوگی ،تب اپنی جان و مال کے ساتھ حاضر ہوجائیں گے۔
یہ طوافِ کعبہ اسی محبوب کے گھر کا طواف ہے جسے آپ ساری زندگی سجدے کرتے رہے ہیں۔ اب اس کے گھر کے چکر لگا کر زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تیرے گھر کے علاوہ کسی کے گھر کا چکر نہیں لگائیں گے۔ اب تیرے در کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گے۔ اے محترم زائرینِ حرم اے اللہ کے گھر کا طواف کرنے کے لئے جانے والوں اس مرحلہ پر طواف کی حقیقت بھی جان لیں کہ یہ کیا ہے اور آپ سے کیوں طواف کرایا جا رہا ہے ۔ جب اللہ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا اور فرشتوں نے آدم ؑ کے بارے میں یہ توجیہ دی کہ یہ زمین پر فساد برپا کرے گا۔
اللہ نے اس پر فرشتوں کو آدم کو سجدے کرنے کا حکم دیا۔ اور آدم ؑ کو فرشتوں پر برتری عطا کی اس سجدے کے بعد اللہ کی جناب میں لب کشائی کی خطا کے کفارے کے طور پر فرشتوں نے عرش الہٰی پر بیت المعمور کا طواف کیا۔ اللہ کو فرشتوں کی یہ ادابہت پسند آئی اور اللہ نے جبرائیل ؑ کو حکم دیا کہ آدمؑ کو لے کر زمین پر جائیں اور عین بیت المعمور کے نیچے زمین پر ایک ایسا ہی میرا گھر تعمیر کریں اور جب میرے بندے میرے عشق سے سرشار ہوں یا ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ کفارے کے طور پر میرے اس گھر کا طواف کریں۔ یہ ہے طواف کی حقیقت۔
اس سے بڑھ کر ایک بات یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جب چاہے جتنی بار چاہے اللہ کے گھر کا طواف کر سکتا ہے لیکن بیت المعمور جس کا ستر ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں اور ایک بار جو فرشتہ طواف کر لیتا ہے دوبار ہ قیامت تک اس کو اس گھر کا طواف نصیب نہیں ہوگا۔
اے حاجیو! غلاف کعبہ سے لپٹ کر چمٹ کر باب کعبہِ ملتزم کو پکڑ کر رونا اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہماری سنوائی اللہ کے در اور ہمارے اشکوں کی جائے پناہ اور اشک شوئی اللہ کے دامن کے سوا کہیں نہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور دوڑنا اللہ کے راستے میں تگ و دو کے جذبے کو مہمیز دیتی ہے۔ یہ میدان ِ عرفات کا اجتماع جہاں عالمی اخوت کا پیغام دیتا ہے، وہیں روز حشر کا دن یاد دلاتا اور میدان حشر کی منظر کشی کرتا ہے۔ یہ مزدلفہ میں ایک رات کا قیام دنیا کی زندگی کی مہلت عمر کا مظہر ہے یعنی انسان کی زندگی بس ایک رات کی مدت کی مانند ہے۔
شیطان نما ستونوں پر سنگ باری کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ شیطان، شیطانی قوتوں، شیطانی اعمال سے اظہارِ برأت اور بیزاری کا اعلان ہے۔ اس پر پتھر مار کر ساری دنیا کو بتاتے ہیں کہ اللہ کے باغیوں سے ہمارا کوئی رشتہ ناطہ تعلق نہیں ہے۔ قربانی کا عمل اس بات کا مظہر ہے کہ جانور کے گلے پر چھری پھیرنا اور اپنے سر کو منڈوانا اپنی جان تک کا نذرانہ اللہ کے حضور پیش کرنے کا عہد ہے۔
ذرا سوچئے صدق ِ دل سے غور کریں کہ اگر ہر زائر حرمین شریفین، ہر حاجی ان مقاصد ِالہیہٰ اور تصورات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناسک حج ادا کرے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ واپس لوٹ کر لوگوں کا مال ناجائز مار سکتا ہے۔ وہ کس طرح اپنی شادی بیاہ موت میت میں غیر اسلامی رسومات کو انجام دے سکتا ہے۔ بھلا کس طرح وہ فجر کی صدا ’نماز نیند سے بہتر ہے ‘‘ کو سنی ان سنی کر کے میٹھی نیند کے مزے لے سکتا ہے۔ حرمین شریفین بیت اللہ مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنے کے بعد بھی کیا اس سے کسی فحاشی و بے حیائی کے سر زد ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔
تمام حجاج کرام اور زائرین حرمین شریفین مبارک باد کے مستحق اور قابلِ رشک ہیں کہ آپ اس سفر حج میں اس شہر محبت و محترم میں جا رہے ہیں جہاں پر ہر قدم پر محبوب خدا حبیب پروردگار کے تابندہ نقوش ِ قد مہائے مبارک آئینہ کی مانند چمکتے نظر آئیں گے اور آپ ان نقشِ پاکو چومتے جائیں گے ۔ وہ گلیاں بھی وہیں ہیں جہاں حضرت بلال ؓ کو گھسیٹا گیا، وہیں آلِ یاسر رہے تھے جن پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
دارِ ارقم بھی وہیں ہے جس میں صحابہ کرام ؓ نے تربیت پائی۔ وہاں غارِ حرا بھی ہے جہاں سے دنیا کو نور ِ قران اور راہِ ہدایت ملی۔ آپ تصور کی آنکھوں سے دیکھیں گے تو آپ کو سب کچھ نظر آجائے گا۔ آپ اس سفر میں شہر نبی ﷺ کی زیارت بھی کریں گے، ریاض الجنہ میں نماز کی سعادت پائیں گے۔ بد ر و احد کی وادیوں سے بھی گزریں گے۔ یہ تمام مقاماتِ مقدسہ آپ کے لئے محض تفریحی مقامات نہیں کہ جہاں آپ تمام تر وقت سیلفی لینے اورویڈیوز بنانے میں گزار دیں۔ ان میں ہر مقام مقدسہ آپ کی ذہنی علمی اور عملی تربیت کا بہترین مقام اور ذریعہ ہے۔
اپنا وقت لایعنی باتوں ، فضول گفتگو اور خوش گپیوں میں مت برباد کر دینا، آپ وہاں خریدنے جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جنت کی خریداری کے مقصد سے توجہ ہٹا کر بازاروں سے سامان خریدنے اور شاپنگ مالز سے شاپنگ کے جھمیلوں میں الجھ جائیں اور سارا وقت اسی کام میں گنوا کر بغیر جنت خریدے خالی ہاتھ واپس آجائیں، بلکہ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ، ہر ہر لحظہ ہر ہر قدم اور ہر ہر نفس اللہ سے وہ سب کچھ حاصل کرنے میں صرف کیجئے گا جس کے لئے آپ نے یہ طویل، پُرمشقت اور کثیر الاخراجات سفر کیا ہے اور اب ایک آخری بات جو اس سفر کا حاصل اور نقطۂ عروج ہے کہ جب روانگی یا واپسی کے لمحات میں روضۂ رسول ﷺ پر سلام ِ آخریں پیش کرنے جائیں تو سنہری جالیوں سے جھانکتے ہوئے دل ہی دل میں اللہ کے رسول ﷺ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہئے گا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب ہمارے گھر کوئی مہمان آتا ہے اور وہ رخصت ہونے لگتا ہے تو ہم اس سے کہتے ہیں کہ پھر آنا، جلدی آنا۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے ہمیں اپنا مہمان بنایا ،اب ہم رخصت ہورہے ہیں بس یا رسول اللہ ﷺ ایک بار ارشاد فرمادیجئے کہ پھر آنا، جلدی آنا، بس یا رسول اللہ ﷺ ایک بار کہہ دیجئے کہ پھر آنا، جلدی آنا۔