• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احمد فرہاد کیس میں آئی ایس آئی، ایم آئی کے سیکٹر کمانڈر طلب، تحریری حکم نامہ


مغوی شاعر احمد فرہاد بازیابی کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے حکم نامہ جاری کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے 8 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ اردو میں جاری کیا گیا، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سیکٹر کمانڈر اور ڈائریکٹر آئی بی کو طلب کرلیا گیا۔

 تحریری حکمنامے میں عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو بھی طلب کرلیا، وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کو بطور عدالتی معاون طلب کیا گیا۔


حکمنامے کے مطابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) نے عدالت کو تحقیقات میں پیشرفت سے آگاہ کیا، پولیس حکام نے بتایا کہ مغوی کی لوکیشن ٹریس کرلی گئی ہے، وہ جلد ہی متعلقہ جگہ اور لوگوں تک پہنچ جائے گی، ایس ایس پی آپریشنز اور ایس ایچ او نے بتایا کہ سیکٹر کمانڈر کا بیان قلم بند نہیں کیا۔

عدالتی حکمنامہ میں کہا گیا کہ پولیس کے مطابق وزارت دفاع سے حاصل تحریری جواب شامل مثل کیا گیا، تفتیشی افسر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سیکٹر کمانڈر کا 161کا بیان قلم بند کرے۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ عدالت زیر بحث مقدمے کی کارروائی کو رپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے، عدالت لاپتہ افراد کے تمام کیسز کی لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے نشر کرنے کا حکم دیتی ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی ایس آئی براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا ایم آئی سیکریٹری ڈیفنس اور افواج پاکستان سے منسلک ہے، عدالت ضروری سمجھتی ہے کہ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

عدالتی کارروائی کے دوران صحافی حامد میر نے پیمرا نوٹیفکیشن کے بارے میں بتایا کہ پیمرا نے الیکٹرانک میڈیا کو کورٹ پروسیڈنگ رپورٹنگ سے روک دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا پیمرا نوٹیفکیشن کی روشنی میں عدالت جس کیس میں مناسب سمجھے اس کا حکم دے سکتی ہے، یہ اہم نوعیت کا مقدمہ ہے، عدالت کارروائی رپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے،  پیمرا کا نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے زیر سماعت نہیں اس لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت مفاد عامہ کا سب سے اہم مسئلہ ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار ذمہ دار بنانے پر پارلیمنٹ سے قانون سازی نہیں ہو سکی، لاپتہ افراد کمیشن سے بھی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا، تمام مسائل کا حل ایجنسیز کے اندرونی معاملات کو سمجھنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے، عدالتی معاونت کیلئے اٹارنی جنرل اور وکیل ایمان مزاری ماہرین نامزد کریں، لاپتہ افراد کا مسئلہ فرد واحد کا مسئلہ نہیں، نہ ہی موجودہ مغوی کی بازیابی کے بعد ختم ہوجائے گا۔

 عدالت نے تحریری حکم نامے میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر 12 سوالوں کے جواب مانگ لیے، آئی جی اسلام آباد سے ایک سال میں لاپتہ تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔

عدالت نے کہا کہ کیا کسی مغوی کے معاملے پر سیکٹر کمانڈر یا ایجنسی کے افسر کا بیان قلمبند کیا گیا؟ 

لاپتہ افراد کے لواحقین کی ریاستی مدد بطور ہرجانے کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟ 

عمومی طور پر آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی پر جبری گمشدگیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں، ان الزامات سے اداروں کی ساکھ اور انتظامی امور متاثر،عوام کی نظرمیں منفی تاثرپھیلتا ہے، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی میں سیکٹر کمانڈر کے فرائض میں کیا امور شامل ہیں؟

ان ایجنسیوں کے افسران انتظامی امور میں کس کوڈ آف کنڈکٹ کے تابع ہیں؟

ایک سال میں میں کسی مقدمے میں تفتیشی افسر نے خفیہ ایجنسیوں کے افسران کا قلمبند کیا؟ 

اگر خفیہ ایجنسیوں کے افسران کو شامل تفتیش کیا گیا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ 

انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پولیس، ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی کے ساتھ کام کرنے کے کیا قواعد و ضوابط ہیں؟ 

انٹیلیجنس ایجنسیوں نے آج تک کتنے افراد کو تحقیقات کیلئے حراست میں لیا ہے؟ 

ایجنسیوں کے افسران ناجائز حراست، بلیک میلنگ، فون ٹیپنگ میں ملوث پائے گئے تو کیا سزا دی گئی؟ 

کسی بھی پاکستانی یا غیر ملکی کو تحویل میں لیا تو اخراجات کی مد میں کتنی رقم خرچ کی گئی؟ آئی ایس آئی،ایم آئی،آئی بی افسران پیش ہوکر اپنے محکموں کے انتظامی امور سے متعلق معاونت کریں۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ سیکریٹری پی ایف یو جے بتائیں لاپتہ افراد کے کیسز کی رپورٹنگ کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟  یہ بھی بتائیں یہ رپورٹنگ کس حد تک عام شہری کے تحفظ میں مددگار ہوسکتی ہے؟ ایجنسیوں میں احتساب کا کیا نظام ہے؟

قومی خبریں سے مزید