اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر بہیمانہ مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، تازہ اطلاعات کے مطابق فلسطینی علاقے رفح میں پناہ گزینوں کے کیمپ پر حملے کے نتیجے میں متعدد فلسطینی باشندے جان کی بازی ہارگئے،نہتے سویلین شہریوں کو ظالمانہ انداز میں نشانہ بنانے پر دنیا بھر کی جانب سے اسرائیل کو شدید تنقید کا سامنا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے پیش نظر مذکورہ حملے کو ایک المناک غلطی قرار دیا ہے۔ اگر گزشتہ سال اکتوبر سے جاری غزہ کشیدگی کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل نے سیکورٹی ناکامی کا بدلہ معصوم فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے شروع کیا، اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں روزانہ کی تعداد میں بے شمار فلسطینی عوام شہید ہورہے ہیں، غزہ کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی اپیلیں کررہے ہیں لیکن طاقت کے نشے میں چُور اسرائیل کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ آج اسرائیل مخالفت صرف مسلمان ممالک تک ہی محدود نہیں رہی ہے بلکہ اسرائیل کے حمایتی مغربی ممالک بھی فلسطینی عوام کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں، یورپی یونین کے تین اہم ممبر ممالک اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو بطور آزاد خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ہے، ہسپانوی وزیراعظم نے فلسطین سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے اقدام کو تاریخی انصاف قرار دیا ہے، آئرش پارلیمان کے باہر فلسطینی پرچم لہرا دیا گیا ہے، یورپی یونین کے ممبران ممالک کے حالیہ اقدام سے امید ہے کہ عالمی برادری کے باقی ممالک بھی فلسطین کے ساتھ عنقریب سفارتی روابط قائم کریں گے، عالمی ممالک کی جانب سے رفح پناہ گزین کیمپ پر حملے کے بعد اسرائیل پر کھلم کھلا عالمی پابندیاں عائد کرنے کی تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں، اقوام متحدہ کے تحت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اسرائیل سے فوری طور پر حملے بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کی حمایت میں مغربی ممالک پیش پیش ہیں۔ اگر فلسطین تنازع کے حوالے سے عالمی منظرنامہ کا جائزہ لیا جائے تو عوامی رائے عامہ واضح طور پر فلسطینیوں کے حق میں نظر آرہی ہے، مختلف ممالک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فلسطین کی آزادی کے حق میں نعرے بلند ہورہے ہیں،مختلف تقاریب میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیا جارہا ہے، دنیا بھر میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ عروج پر ہے ،ماضی میں اسرائیل کی مسلسل حمایت کرنے والے مغربی ممالک بھی اب محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طرف دیکھیں تو نریندرمودی تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے، اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ مودی کے دور اقتدار میں انڈیا بہت تیزی سے ہر شعبے میں آگے بڑھا لیکن اسکی بھاری قیمت ہندوستان کے روایتی تشخص کو مجروح کرکے چکانا پڑی، مودی سرکار نے طاقت کے نشے میں مقبوضہ وادی کشمیر سے متعلقہ آرٹیکل 370کو ملکی آئین سے نکال باہر کیا لیکن آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو پوری مقبوضہ وادی سے ایک امیدوار ایسا نہیں ملا جسے وہ پارٹی ٹکٹ دے سکے، سرحدپار مبصرین اس صورتحال کو بی جے پی کی نفرت انگیز سیاسی مہم کی پہلی شکست قرار دے رہے ہیں، ایک طرف ستاروں کی چال اور دوسری طرف زمینی حقائق بھی یہی عندیہ دے رہے ہیں کہ بھارت میں الیکشن کے بعد کی صورتحال مودی کیلئے پریشان کُن ثابت ہوگی اور لوک سبھا میں چارسو نشستیں حاصل کرنے کا ہدف کسی صورت پورا نہیں ہوسکے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ خدا کی دھرتی پر بڑے بڑے متکبر حکمران گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ہتھیاروں سے دھرتی کو لہولہان کیا،خون کی ندیاں بہائیں اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کردیے لیکن آخرکاروہ شکست کھا گئے، آج کوئی انکی تمام تر فتوحات اور کامیابیوں کے باوجود انکا نام بھی اچھے انداز سے لینا پسند نہیںکرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے ہر مذہب نے ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کا درس دیاہے،سانحہ کربلا میں یزید اپنی طاقت کے بل بوتے پر جیت گیا لیکن اصولی فتح حضرت امام حسین کو حاصل ہوئی جو اپنے اہل خانہ سمیت اصولوں کی خاطر خدا کی راہ میں جانوں کے نذرانے پیش کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے ۔زیادہ وقت نہیں گزرا جب گزشتہ صدی میں ہٹلرنامی ایک طاقتور حکمران کا نازی جرمنی پر راج ہواکرتا تھا، اس نے نہ صرف طاقت کے غرور میں پڑوسی ممالک پر چڑھائی کرکے دوسری جنگ عظیم کی راہ ہموار کی بلکہ اپنے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والوں کا قتل عام بھی کیا ، ہٹلر بھی عوامی ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آیا تھا اور اپنے آپ کو جرمنی کا خیر خواہ سمجھتا تھا لیکن آج اسی کے ملک جرمنی کے باسیوں کی نظر میں ہٹلر سخت ناپسندیدہ شخصیت ہے۔اسی طرح طاقت کے نشے میں چُور سپرپاور سویت یونین کا انہدام اورسپرپاور امریکہ کی بیس سال بعد افغانستان سے افراتفری کے عالم میں واپسی ہمارے سامنے کی بات ہے۔ آج طاقت کے غرور میں ملکی و عالمی قوانین کو اپنے پیروں تلے روندنے والے ممالک کی غیرذمہ داراعلیٰ قیادت کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ انہیں ایک نہ ایک دن معصوم لوگوں پر ڈھائے جانے والے بہیمانہ مظالم کا حساب دینا ہوگا،انہیں اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، انکی جدید ٹیکنالوجی،ڈپلومیسی اور اکانومی انہیں مظلوم کی آہ سے بچا نہیں سکے گی ۔آج دنیا کے ہر امن پسند باشعور انسان کو آگے بڑھ کر انسانیت کا پیغام عام کرنا چاہیے اور غرورو تکبر کا مظاہرہ کرنے والوں کا ہاتھ روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔میری نظر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پرمکمل عملدرآمدیقینی بنائے بغیر عالمی امن کا قیام کسی سراب کے سوا کچھ نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)