• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کے 6 اضلاع میں خواتین ڈپٹی کمشنرز کی تقرری

خواتین، معاشرے کا اُتنا ہی اہم حصّہ ہیں، جتنے کہ مَرد۔تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقّی یافتہ معاشرہ ہو یا ترقّی پذیر، آج بھی خواتین اپنے جائز مقام کے حصول اور مَردوں کے مساوی حقوق کے لیے سخت جدوجہد پر مجبور ہیں۔ 

مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام عموماً وہاں کی معاشرتی اقدار و روایات ہی کے مطابق ہوتا ہے، البتہ ترقّی یافتہ دَور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمّے داریاں پوری کرنے کے ساتھ، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں اور شاید اِس کی اہم وجہ خواتین میں حصولِ تعلیم کا بڑھتا رجحان ہے۔ 

خواتین کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے اُن قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے، جہاں کبھی والدین، لڑکی کی پیدائش ہی سے طرح طرح کی ذہنی تفکّرات میں گُھلنا شروع ہو جاتے تھے۔ اُنہیں بیٹی کی شادی کے اخراجات کا بندوبست کرنا ہی اپنا اوّلین فریضہ لگتا تھا، مگر اب یہ حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی پچاس فی صد آبادی کو معاشرتی سرگرمیوں سے الگ رکھ کر ترقّی نہیں کر سکتا، لہٰذا خواتین کی روز مرّہ سرگرمیوں میں شمولیت ناگزیر ہے۔

اگر بلوچستان کی بات کریں، تو یہاں دو دہائی قبل تک روایتی اور معاشرتی طور پر مَردوں کو خواتین پر خاصی فوقیت حاصل تھی، مگر اب واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے، جس کا اندازہ خواتین کی تعلیمی اداروں سمیت مختلف شعبوں میں بڑھتی تعداد سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ 

یونی ورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کے داخلے میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تو سِول سروس، سیاست، اسپورٹس، تعلیم، طب، پولیس سمیت مختلف شعبوں میں پشتون اور بلوچ گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین تیزی سے آگے آرہی ہیں۔

اب قبائلی خواتین سیاست اور حکومت میں شامل ہو کر بھی مُلکی ترقّی کے لیے اہم خدمات سرانجام دے رہی ہیں، حالاں کہ 2002ء کے عام انتخابات میں یہ صُورتِ حال تھی کہ بلوچستان سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے اکثر سیاسی جماعتوں کے پاس خواتین اُمیدوار تک نہیں تھیں، لیکن اب، 2024ء میں صوبے کے کئی قبائلی گھرانوں کی خواتین مخصوص نشستوں پر براجمان ہیں۔

نیز، صوبے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں میں مقابلے کے امتحانات میں حصّہ لینے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خصوصاً گزشتہ ایک دہائی کے دَوران متعدّد خواتین سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات میں کام یابی حاصل کر کے محکمۂ پولیس اور ضلعی انتظامی عُہدوں پر تعیّنات ہوئی ہیں۔اِس ضمن میں کوئٹہ سٹی ڈویژن میں تعیّنات ایس پی، پری گل ترین کو کوئٹہ کی پہلی خاتون اے ایس پی ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جب کہ ڈی ایس پی، شبانہ حبیب ترین طویل عرصے سے پولیس میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔

اُنہوں نے فورس میں اُس وقت شمولیت اختیار کی، جب بچیوں کا یونی ورسٹی جانا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈپٹی کمشنر کے عُہدوں پر تعیّنات خواتین افسران کی تعداد چھے ہو گئی ہے۔ ان تعیّناتیوں کو بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کی ترقّی اور اہم شعبوں میں شمولیت کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس سے تعلق رکھنے والی گریڈ18کی افسر، بتول اسدی ڈپٹی کمشنر نصیرآباد، بلوچستان سِول سروس گروپ کی گریڈ18 کی افسر فریدہ ترین ڈپٹی کمشنر صحبت پور، روحانہ گل کاکڑ ڈپٹی کمشنر حب، حمیرا بلوچ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ، عائشہ زہری ڈپٹی کمشنر آواران اور ثنا مہ جبین عمرانی ضلع شیرانی میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ذیل میں ان چھے ڈپٹی کمشنر خواتین کا مختصر تعارف اور اُن سے ہونے والی بات چیت پیشِ خدمت ہے۔

بتول اسدی، ڈپٹی کمشنر نصیر آباد

ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے بلوچستان میں کام کرنے والی خواتین افسران میں سب سے سینئیر، بتول اسدی ہیں، جنہیں 8ماہ قبل نصیر آباد میں تعیّنات کیا گیا۔ان کا تعلق کوئٹہ کے قدیم ہزارہ قبیلے سے ہے۔ والد، جمعہ اسدی فقۂ جعفریہ کے ممتاز عالمِ دین اور جامعہ امام جعفر صادقؓ کے پرنسپل ہیں، جب کہ شوہر بھی بیورو کریٹ ہیں۔ 

ابتدائی تعلیم کوئٹہ پبلک اسکول سے حاصل کی اور ’’ سردار بہادر خان ویمن یونی ورسٹی‘‘ سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔بتول اسدی سِول سروس میں آنے سے پہلے کوئٹہ کی بیوٹمز یونی ورسٹی میں انگریزی کی لیکچرار تھیں۔2016 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسز میں شامل ہونے والی بتول اسدی نے سب سے پہلے پنجاب کے شہر، رحیم یار خان میں خدمات سرانجام دیں۔2017 ء میں بلوچستان کی سب سے پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر بنیں۔

اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو، ڈپٹی سیکریٹری ٹو چیف سیکرٹری اور گریڈ17 سے گریڈ18 میں ترقّی پانے کے بعد ایڈیشنل سیکریٹری کوسٹل ڈویلپمنٹ اینڈ فشریز سمیت مختلف عُہدوں پر کام کیا۔علاوہ ازیں، دورانِ سروس اسکالر شپ حاصل کرکے برطانیہ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے پبلک پالیسی میں ماسٹرز کیا۔ اُنہوں نے کوئٹہ سٹی میں بطور اسسٹنٹ کمشنر مَردوں کے مقابلے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 

عبایا میں ملبوس بتول اسدی نے اپنے منفرد انداز اور گراں فروشوں کے خلاف خصوصی کریک ڈائون سے کوئٹہ میں بہت شہرت حاصل کی۔ وہ گراں فروشوں کے لیے خوف کی علامت رہیں اور اُن کے دَور میں اشیائے خوردنی، خاص طور پر دودھ کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ کوئٹہ میں دودھ فروش مافیا کی مَن مانیاں عروج پر تھیں، اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ ناجائز منافع خور دودھ فروشوں کو گرفتار کیا، بلکہ ڈیری فارمز پر چھاپے مار کر بااثر ڈیری مالکان کو پابندِ سلاسل بھی کیا۔ 

اُن کی اِس مثالی کارکردگی ہی سے حکومتی پالیسی میں تبدیلی آئی اور مقابلے کے امتحانات کے ذریعے تعیّنات ہونے والی خواتین افسران سے ڈیسک جاب کے ساتھ، فیلڈ ورک بھی لینے کا آغاز ہوا اور یوں مختلف اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کے عُہدوں پر خواتین افسران کی تقرّری شروع ہو گئی۔بتول اسدی کا سول سروس سے متعلق کہنا ہے کہ’’ سِول سروس میں آنے کی بڑی وجہ میرے شوہر ہیں، جو سِول سروس سے وابستہ ہونے کے ساتھ مقابلے کے امتحانات کی تیاری بھی کرواتے ہیں۔

اُنہوں نے ہی مجھے مقابلے کے امتحان کی تیاری پر آمادہ کیا۔ طلبہ سیاست میں تو کبھی شامل نہیں رہی، لیکن تقریری مقابلوں میں ضرور شرکت کرتی تھی۔‘‘ شوہر کے تعاون اور مدد نے اُنھیں مقابلے کے امتحان میں پہلی پوزیشن دِلوائی اور وہ کئی نوجوانوں کے لیے مثال بنیں۔ ابتدائی طور پر اُنہیں فیلڈ میں اسسٹنٹ کمشنر تعیّنات کرنے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا، لیکن پھر پہلی بار کمشنر، قمبر دشتی نے ایک جرأت مندانہ کوشش کی اور اُنہیں اسسٹنٹ کمشنر مقرّر کردیا۔

بعدازاں، اُن کی اِس تعیّناتی نے یہ رجحان مثبت تبدیلی میں بدل ڈالا اور لڑکیاں مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا شروع ہوگئیں۔ بتول اسدی کا خواتین کی تعیناتیوں کے ضمن میں کہنا ہے کہ’’ بے شک یہ پانچ، چھے ڈی سیز اور اے سیز خواتین کی تعیناتیاں ہو تو گئی ہیں، لیکن صنفی مساوات کے لیے اب بھی وقت درکار ہے۔ اِتنا ضرور ہوا ہے کہ خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے ہم سے رابطہ کرتی ہیں اور بلا جھجک ہم تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ 

جہاں پچھلے دس برسوں میں کوئی خواتین کو اسسٹنٹ کمشنر تعیّنات کرنے پر راضی نہ تھا، اب ایک دہائی بعد اِسی صوبے کی انتظامیہ نے چھے خواتین کو ان عُہدوں پر مقرّر کیا ہے، تو اُمید ہے کہ اِس طرح اگلی دہائی بھی خواتین کی ترقّی کی ضامن ہو گی۔ خواتین ہماری آبادی کا تقریباً آدھا حصّہ ہیں، جب تک یہ نصف حصّہ مُلکی معاملات میں برابر کا شریک نہیں ہوتا، ہم ترقّی کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔

بلاشبہ، سیاسی، سماجی اور معاشی ترقّی میں خواتین کو مساوی سطح پر لانے کے لیے تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت ہے کہ معاشرتی بے داری کی اوّلین ضرورت تعلیم ہی ہے۔ ایک پرانا مقولہ ہے کہ ’’ مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، مَیں ترقّی یافتہ معاشرہ دوں گا‘‘سو، اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک پڑھی لکھی، باشعور ماں ہی ایک ایسے معاشرے کو جنم دیتی ہے، جو قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے اور ترقّی کی بنیاد یہیں سے پڑنا شروع ہوتی ہے۔‘‘

فریدہ ترین، ڈپٹی کمشنر، صحبت پور

فریدہ ترین کا تعلق پشین سے ہے۔ اُنہوں نے لاہور سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔2017 ء میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سِول سروسز کا حصّہ بنیں۔اسسٹنٹ کمشنر خاران، اسسٹنٹ کمشنر دشت، ڈپٹی سیکریٹری ٹو چیف سیکریٹری، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لورالائی، ایس اینڈ جی اے ڈی میں سیکشن افسر اور ڈپٹی سیکرٹری کے عُہدوں پر کام کر چُکی ہیں۔اب انہیں ضلع صحبت پور کے انتظامی سربراہ کا عُہدہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی سروس کے دوران پہلی مرتبہ ڈپٹی کمشنر تعیّنات ہوئی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ’’بلوچستان کے چھے اضلاع میں بیک وقت خواتین ڈپٹی کمشنرز کی تعیّناتی بیورو کریسی میں اُن کی متنوّع نمائندگی اور شراکت داری کی جانب اہم قدم ہے۔ اس سے بلوچستان کا مثبت تشخّص اجاگر ہونے کے ساتھ، عوام کو ایک اچھا پیغام بھی ملے گا۔

بلوچستان کے مخصوص سماجی ڈھانچے کی وجہ سے بہت سے شعبوں میں خواتین نہیں آتیں اور بیورو کریسی بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے، جہاں کچھ برسوں پہلے تک خواتین آنے سے گھبراتی تھیں، بالخصوص فیلڈ میں کام کرنے والوں میں کوئی خاتون افسر شامل نہیں تھی۔

تاہم، آج خواتین نے اپنی صلاحیت اور کام سے یہ تصوّر ختم کر دیا ہے۔ اِس وقت 8 خواتین بلوچستان سِول سروسز کا حصّہ بن کر فیلڈ میں کام کر رہی ہیں، جب کہ سِول سیکرٹریٹ میں پانچ خواتین بطور افسر خدمات انجام دے رہی ہیں۔‘‘ 

ان کا مزید کہنا ہے کہ’’ جب تک ہم خواتین کو ایک ذمّے دار شہری کی نظر سے نہیں دیکھیں گے، تب تک مُلک کی تعمیر و ترقّی میں تعلیم یافتہ خواتین کے کردار کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ دینِ اسلام نے ایک ایسے قبائلی معاشرے میں، جہاں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا اور اُن کے کوئی حقوق نہیں تھے، خواتین کو برابری کا حق دیا۔ 

خواتین اور مَردوں کو پیدائش کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اُن کے عمل و کارکردگی کی بنیاد پر مقام دینے کی بات کی۔ سزا اور جزا برابر رکھی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین، مَردوں سے کم تَر نہیں۔ اسلام نے خواتین کو وراثت میں حق دیا، شادی میں اُن کی رضا مندی کو اُن کا حق سمجھا اور اس کا حصول لازم قرار دیا۔ 

جہاں قرآنِ پاک نے خواتین اور مَردوں، دونوں کو شرعی تعلیمات حاصل کرنے کا کہا، وہیں میرے پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مَرد و عورت پر فرض ہے۔‘‘ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کے جائز مقام کو سمجھنا مثبت پیش رفت ہے۔ اُمید ہے کہ مستقبل میں بھی صوبے کی خواتین سرکاری مشینری میں اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کرتی رہیں گی۔‘‘

روحانہ گل کاکڑ، ڈپٹی کمشنر، حب

روحانہ گل کاکڑ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول، ریلوے کالونی، کوئٹہ سے حاصل کی، پھر بی ایس کمپیوٹر سائنس اور ایم بی اے بلوچستان یونی ورسٹی سے کیا۔ 2017 ء میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سِول سروسز کا حصّہ بنیں۔

وہ ڈائریکٹر بی پیپرا، سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، اسسٹنٹ کمشنر ژوب، اسسٹنٹ کمشنر حب اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لسبیلہ کے عُہدوں پر کام کر چُکی ہیں۔ انہیں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی سیکرٹری کی حیثیت سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر2019 ء میں انٹیگریٹی آئیکون ایوارڈ ملا۔

ان کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں اور کم وسائل کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہے، اِس لیے ہمیں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ مَیں سِول سروسز میں آنے کے بعد کبھی وقت پر گھر پہنچی ہوں۔ کام کا بوجھ بہت ہوتا ہے، لیکن سینئیر افسران کے تعاون، ماتحت عملے کی محنت اور لوگوں کا احترام دیکھ کر مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ سِول سروس میں قدم رکھنے کی وجہ میرے والد ہیں، جنہوں نے تعلیمِ نسواں کے لیے سماجی رویّوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

والد نے سماجی قدامت پسند رویّوں کو بالائے طاق رکھ کر بیٹی کے دوست کا کردار ادا کیا اور ہر قدم پر ساتھ کھڑے رہے۔فیلڈ میں روز ہی ایک نئے مقابلے اور چیلنج کا سامنا رہتا ہے اور اگر کسی دن اپنے چیلنج سے نمٹنے میں کوئی کسر رہ جائے، تو اُس دن ملال سا رہتا ہے۔

سماجی سطح پر خواتین پر عوامی اعتماد کی نئی تاریخ رقم ہونا شروع ہو گئی ہے اور آج کی کوشش اور لگن ہی مستقبل میں خواتین کو انتظامی امور سے جوڑنے میں سنگِ میل ثابت ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں ہمارے قبائلی معاشرے کے والدین، بھائی اور شوہر اپنے گھر کی خواتین کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دے رہے ہوں گے۔‘‘

حمیرا بلوچ، ڈپٹی کمشنر، لسبیلہ

حمیرا بلوچ نے کامرس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگریز حاصل کر رکھی ہیں۔2018 ء میں پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے سِول سروس کا حصّہ بنیں۔ وہ سِول سیکرٹریٹ، وزیرِ اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری اور کوئٹہ میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چُکی ہیں۔ 

اُن کا کہنا ہے کہ’’ آبادی کا نصف سے زائد حصّہ خواتین پر مشتمل ہے، انہیں برابر کے مواقع ملنے چاہئیں۔خواتین نے بیورو کریسی سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اگر انہیں مزید مواقع ملے، تو مُلک و قوم کی بہتری کے لیے اچھا کام کر سکتی ہیں۔

ہمیں فیلڈ میں کام کرتے دیکھ کر لڑکیوں ہی کی نہیں بلکہ اُن کے والدین اور عام لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ ہمیں دیکھ کر اگر اپنی بیٹیوں کو افسر نہیں بنائیں گے، تو کم از کم تعلیم ضرور دلوائیں گے۔ سِول سروس میں آنے والی تمام خواتین اپنے بَل بُوتے پر اِس مقام تک پہنچی ہیں اور ان عُہدوں تک پہنچنا کچھ آسان نہیں تھا۔ ہم نے خاندان، معاشرے کے دباؤ اور بہت سی دیگر رکاوٹوں کا مقابلہ کیا ہے۔ 

بلوچستان کے انتظامی ڈھانچے میں زیادہ تر اسٹیک ہولڈرز خواتین افسران کو اپنے علاقوں میں اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کے عُہدوں پر تعیّنات کرنے سے کتراتے تھے، لیکن اب وہ خواتین افسران کی کارکردگی دیکھ کر اپنی سوچ بدل رہے ہیں۔ 

آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقّی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اِس لیے ایک پڑھی لکھی عورت ہی اِس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کر سکتی ہے۔تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسروں تک پہنچا سکتی ہے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔ تعلیم یافتہ عورت مُلک کی ترقّی کے لیے اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرتی ذمّے داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ ہی بنے۔

عورت کی اوّلین ذمّے داری اس کا گھر ہے، وہ پڑھی لکھی ماں، بیوی اور بہن کے طور پر بھی اپنے گھر کو بہتر طور پر سنبھال سکتی ہے۔ عورت کائنات کا وہ حُسن ہے، جس کے بغیر سازِ ہستی میں سوز باقی نہیں رہتا۔ زندگی کا پہیّا گردش نہیں کر سکتا اور نہ ہی حیاتِ انسانی میں کوئی رنگ و بُو باقی رہتی ہے۔ خواتین کو مُلکی تعمیر وترقّی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالنا چاہیے، کیوں کہ ان کی مؤثر شمولیت کے بغیر کبھی بھی پائے دار ترقّی کا خواب شرمندۂ تعبیرنہیں ہوسکتا۔‘‘

عائشہ زہری، ڈپٹی کمشنر، آواران

عائشہ زہری کو دو سال قبل، یعنی 2021ء میں اُس وقت صوبے کی پہلی خاتون ڈپٹی کمشنر بننے کا اعزاز حاصل ہوا، جب اُنہوں نے سیلابی صُورتِ حال میں ہنگامی بنیادوں پر ریلیف کی سرگرمیوں میں حصّہ لیا، جس کے سوشل میڈیا پر چرچے ہوئے، تو وزیرِ اعلیٰ، میر عبدالقدوس بزنجو نے اُنہیں خصوصی احکامات کے تحت ڈپٹی کمشنر، نصیر آباد مقرّر کردیا۔

عائشہ زہری الیکٹریکل انجینئر ہیں۔2015ء میں خضدار انجینئرنگ یونی ورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے والد، حاجی محمّد رمضان قبائلی اور کاروباری شخصیت ہیں۔ تاہم، ضعیف العمری کے باعث اب اُن کے بیٹے کاروبار سنبھال رہے ہیں۔عائشہ زہری کی پیدائش و پرورش ضلع خضدار میں ہوئی۔

اُنہوں نے تعلیمی مدارج کام یابی سے طے کیے اور ان کا شمار کلاس کی ذہین طالبات میں ہوتا تھا۔ دورانِ تعلیم والد نے ان کی بھرپور رہنمائی اور سرپرستی کی۔2017 ء میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے صوبائی سِول سروسز کا حصّہ بننے سے پہلے وہ کیسکو (واپڈا) میں ایس ڈی او تھیں۔ اُنہوں نے سِول سیکرٹریٹ میں ایس اینڈ جی اے ڈی، زراعت سمیت مختلف محکموں میں سیکشن افسر اور ڈپٹی سیکرٹری سمیت تفتان، دشت، مچھ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کام کیا۔ 

ان کے شوہر بھی سرکاری افسر ہیں۔ عائشہ زہری نے تفتان میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے دُور دراز اور حسّاس علاقوں میں مغوی نوجوان کی بازیابی اور منشیات پکڑنے کے لیے آپریشن کی قیادت کی۔2022ء کے سیلاب میں مچھ کے متعدّد علاقوں میں سیلابی ریلوں میں پھنسے خواتین اور بچّوں سمیت درجنوں افراد کی جانیں بچانے پر وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے اُن کی ستائش کی اور بعدازاں اُنھیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ عائشہ زہری کہتی ہیں کہ وہ شہید بے نظیر بھٹّو اور نیوزی لینڈ کی سابق وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن سے متاثر ہیں۔

خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کو یک ساں مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں کہ تعلیم یافتہ خواتین قومی ترقّی کے فروغ میں اہم کردار کی حامل ہیں۔میری دلی تمنّا ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ قومی ترقّی کی رفتار تیز ہو۔ نیز، صنفی امتیاز کے خاتمے اور یک ساں حقوق کی فراہمی ہی سے پس ماندگی کا خاتمہ ممکن ہے کہ مُلک کی نصف سے زائد آبادی کو ترقّی کے دھارے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ 

قومی ترقّی کے مقاصد کے حصول کے لیے مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی اپنا حصّہ ڈالنا ہے، کیوں کہ خواتین کی شرکت سے نہ صرف مُلک کی افرادی قوّت دُگنی ہوگی، بلکہ پُرعزم اساتذہ، بیورو کریٹس، سائنس دانوں، انجینئرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی بڑی تعداد میں دست یابی بھی یقینی ہوجائے گی۔‘‘

ثنا مہ جبین عمرانی، ڈپٹی کمشنر شیرانی

ثنا مہ جبین عمرانی کا تعلق جعفر آباد سے ہے۔ اُنہوں نے ویمن یونی ورسٹی سے پاکستان اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔دَورانِ تعلیم ہمیشہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہیں۔ نیز، غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی رہیں۔ کھیلوں کے ساتھ نعت خوانی کے مقابلوں میں بھی کام یابی حاصل کی۔ 

اُنہوں نے2017 ء میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پہلی کوشش میں پاس کیا۔ اے ڈی سی گوادر، اے ڈی سی کوئٹہ، اے سی دشت، اے سی سبّی سمیت مختلف عُہدوں پر فرائض انجام دے چُکی ہیں اور حال ہی میں ضلع شیرانی کی ڈپٹی کمشنر تعیّنات کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔ اِنہیں بچپن ہی سے سِول سروس میں جانے کا شوق تھا اور والدین کی جانب سے کہا جاتا کہ’’ آپ نے اسسٹنٹ کمشنر بننا ہے۔‘‘ 

اِسی لحاظ سے تعلیمی مضامین کا انتخاب کرتی رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں خواتین کی ترقّی، اُن کی بڑھتی ہوئی خود اعتمادی اور حقوق و فرائض کے شعور کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ مَرد اور خواتین گھر چلانے اور ملّی، معاشی ترقّی میں یک ساں کردار ادا کر رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے اور منہگائی کے طوفان نے متوسّط طبقے کے لیے یہ مشکل بنادیا ہے کہ گھر کا خرچہ ایک ہی فرد چلائے، ایسے میں باصلاحیت خواتین آگے آکر بھرپور اعتماد سے اپنی ذمّے داریاں احسن طریقے سے پوری کر رہی ہیں۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا کہ’’مَردوں کی نسبت خواتین افسران بلوچستان کے معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں لوہا منوا رہی ہیں۔ اگر کوئی احتجاج، دھرنا، جلسہ جلوس ہو، تو خواتین افسران کو نہ صرف عزّت و احترام دیا جاتا ہے بلکہ ان کی لاج رکھتے ہوئے مظاہرین مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں اور اِس طرح مسئلہ خوش اُسلوبی سے حل ہو جاتا ہے۔محسوس یہی ہو رہا ہے کہ بلوچستان میں مستقبل میں مزید تبدیلی آئے گی، کیوں کہ بچیاں اب گھروں سے نکل کر اپنا تعلیمی سفر کام یابی سے مکمل کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کا انتخاب کر رہی ہیں۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید