میں قبائلی علاقوں پر لکھتا رہا ہوں اور ان کی محرومیوں ، مسائل اور مشکلات سےکسی حد تک واقف ہوں۔ انضمام سے پہلے یہاں کے باسیوں کو ایف سی آر کے ظالمانہ نظام سے نجات دلانے اور قومی دھارے میں لانے کیلئے مجھ سے جو ہوسکا، کرگزرا۔چونکہ انضمام کے بعد وفاقی حکمرانوں نے حسب وعدہ قبائلی اضلاع کو ڈویزیبل پول میں سے تین فی صد (جو ایک سو ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے ) ایک سال بھی نہیں دیا اسلئے آج بعض لوگوں کوانضمام پر تنقید کا بہانہ مل گیا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ انضمام سے قبل بھی قبائلی اضلاع میں غربت کی شرح بلوچستان سے زیادہ تھی۔ دوہزار اٹھارہ میں ان علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد توقع تھی کہ یہاں کے شہریوں کو ملکی وسائل میں ان کا حق ملنا شروع ہوجائے گااور اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن نے مل کر جو وعدے یہاں کے عوام سے کیے انکے پورا نہ ہونے کا کوئی سوال نہیں تھا کیونکہ جے یوآئی اور پی کے میپ کے سوا تمام جماعتوں کی قیادت نے دو نوں وعدے بالاتفاق کئے تھے ۔ ایک وعدہ ڈویزیبل پول کا تین فی صد سالانہ دینے کا اور دوسرا اگلے دس سال تک کوئی ٹیکس نہ لگانے کا ۔ وفاق نے اس سے بڑھ کر مزید بھی دینے کی یقین دہانیاں کرائی تھیں لیکن افسوس کہ یہ وعدہ عمران خان کی حکومت میں پورا کیا گیا اور نہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ۔
پچیس نومبر دوہزار تیئس کو میں نے اعداد و شمار کے ساتھ ایک تفصیلی کالم میں بتایا کہ ان وعدوں کو کیسے ہوا میں اڑایا گیا ۔ اس وقت چونکہ ملک میں نگران حکومت تھی اس لیے ایک خاص حد سے آگے انکے بھی ہاتھ بندھے ہوئے تھےاور اب چونکہ ملک میں شہباز شریف صاحب کی مخلوط حکومت قائم ہے اور نیا بجٹ بھی سر پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو آخرکار پورا کیا جائے۔
میرے سامنے اس وقت کچھ اعدادوشمار ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ 2009میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تمام صوبوں کو وسائل کی فراہمی بڑھی لیکن قبائلی اضلاع اس بڑھوتری سے محروم رہے(واضح رہے کہ اس وقت وہ سینیٹرز بھی موجود تھے اور اضافی ایم این ایز بھی جنکے نہ ہونے سے اب کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے )۔ پلاننگ کمیشن کی 19۔2018کی رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت کا تناست بائیس فی صد، بلوچستان میں بیالیس فی صد جبکہ قبائلی علاقوں میں چوہتر فی صد تھا۔گویا یہ انضمام سے قبل کی صورت حال تھی۔ لیکن وفاق کا ظلم دیکھ لیجئے کہ 2020 میں پورے ملک میں اوسطاً فی کس تیئس ہزار چھ سو روپے خرچ کیے گئے جبکہ قبائلی علاقوں میں فی کس بیس ہزار سات سو روپے خرچ کئے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غربت والی رپورٹ کی روشنی میں قبائلی علاقوں میںفی کس سرکاری خرچ بڑھایا جاتا لیکن اسکے الٹ ہوا ۔ 2021 میں باقی ملک میں یہ خرچہ اٹھائیس ہزار پانچ سو فی کس سالانہ اور 2022 میں بتیس ہزار سات سو روپے تک پہنچ گیا۔ قبائلی علاقوں کو چونکہ پسماندہ رکھنا تھا اس لیے دوہزار اکیس میں خرچہ کم ہوکر اٹھارہ ہزار چار سو اور دوہزار بائیس میں مزید کم ہوکر سولہ ہزارفی کس رہ گیا۔ یعنی اگر باقی ملک میں فی کس ایک روپیہ خرچ ہورہا تھا تو قبائلی علاقوں میں اٹھنی خرچ ہورہا تھا۔ کل ملا کر دوہزار سات آٹھ سے لے کر دو ہزار اکیس تک باقی ملک کے مقابلے میں مجموعی طور پر قبائلی علاقوں میں کیا گیا فی کس سرکاری خرچ بھی تقریباً اتنا ہی بنتا ہے، یعنی اٹھنی۔ اس دوران انضمام سے دو سال پہلے یہ گیپ کم ہونا شروع ہوا لیکن انضمام کے بعد تو گویا اس میں شدت آگئی۔ اب باقی ملک میں یہ سرکاری خرچ بڑھ رہا ہے اور قبائلی علاقوں میں کم ہورہا ہے ۔ گویا اٹھنی سے چونی کی طرف سفر کرانے کا ارادہ ہے۔میں نے پچیس نومبر کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں لکھا تھاکہ :
”ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انضمام کے بعد مالی معاملات صوبے کے سپرد کردیے جاتے لیکن مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمے پر جو پروجیکٹ لانچ کیا گیا اس کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں تھا۔ انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کا صوبہ اپنی آبادی اور رقبے میں اضافے کے بعد اصل میں ایک نیا صوبہ بن گیا۔ وفاقی محاصل کی تقسیم کا جو فارمولہ ملک میں رائج تھا اس میں اس حساب سے تبدیلی ناگزیر تھی۔ صوبے کا حصہ لگ بھگ چودہ فیصد سے بڑھ کر ساڑھے انیس فیصد ہو جانا تھا ۔ تاہم اس میں نئی آبادی توشامل ہوگئی لیکن عمران خان کی حکومت نے وفاقی محاصل میں اس کا حصہ انیس فیصد پر لانے کی بجائے سابقہ چودہ فی صد پر برقرار رکھا۔ حالانکہ انضمام کے وقت تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت نے بالاجماع یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہ حصہ انیس فی صد کرنے کے علاوہ قبائلی اضلاع کو دس سال تک ڈویزیبل پول سے تین فی صد اضافی دئیے جائیں گے جو تقریبا سوارب روپے بنتے تھے(اور اب تقریباً دو سو ارب بنتے ہیں) لیکن گزشتہ پانچ سال میں ایک سال بھی ایسا نہیں ہوا حالانکہ سرتاج عزیز کمیٹی جو پچیسویں ترمیم کی بنیاد ہے، میں بھی یہ بنیادی نکتہ شامل تھا۔“
اب وقت آگیا ہے کہ وعدوں کی بجائے اس اٹھنی چونی کے کھیل سے نکلا جائے۔ وفاقی محاصل کی تقسیم کا این ایف سی فارمولا اب تقریباً پندرہ برس پرانا ہوچکا ہے۔ اسے دس برس قبل ہی بدلنا چاہیے تھا۔ ہر وہ سال جو اس ازکاررفتہ (اور نئی مردم شماری کے بعد غیر آئینی) فارمولے کو بدلے بغیر گزرتا ہے اس میں قبائلی اضلاع کا تقریباً دو سو چالیس ارب روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔یعنی ہر مہینے تقریباً بیس ارب روپے۔ وزارت قانون نگران دور میں اس کو بدلنے کے حق میں رائے دے چکی ہے۔ قبائلی عوام کو مزید سوارب کی سالانہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی بجائے انہیں ان کا جائز آئینی حق دیا جائے۔ اس کام کیلئے وزیراعظم ہی این ایف سی اجلاس بلاسکتے ہیں اس لیے اس ضمن میں اب کے بعد ہونے والی ہر تاخیر پر ان ہی سے پوچھا جائے گا۔مختصر الفاظ میں انضمام کے بعد این ایف سی میں پختونخوا کا حصہ چودہ سے انیس فی صد ہونا چاہئے تھا ۔ اب پانچ فی صد سالانہ کے حساب سے مرکز گزشتہ چھ سال میں قبائلی اضلاع کا اس ضمن میں مقروض ہے کہ ان کی آبادی کے حصے کی رقم صوبے کو نہیں ملی اور دوسرا ڈویزیبل پول کے تین فی صد کے حساب سے۔ گویا مرکز نے قبائلی اضلاع کو سالانہ ڈویزیبل پول کے آٹھ فی صد کے حساب سے بقایا جات کی ادائیگی کرنی ہے ۔ واضح رہے کہ یہ وہ قبائلی اضلاع ہیں کہ جن کے لوگ پاکستان کی جنگ میں مر گئے، کٹ گئے اور بے گھر ہوگئے اور دوسری طرف ان کے ساتھ ہمارا یہ سلوک ملاحظہ کیجئے۔