• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک ایک بار پھر افواہوں کی زد میں ہے۔ جمہوری نظام کو لپیٹنےاورنئی سیاسی جماعت کی تشکیل جیسی باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کی بریت کے فیصلےکے بعدفارم47 کے کیسوں میں کئی ارکان اسمبلی کے فارغ ہونے کی خبریں گردش کررہی ہیں۔جس کا مقصد ملک دشمن عناصر کی جانب سے ملک کی معاشی صورت حال میںبہتری کےآثار کو متاثر کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر افواج پاکستان اورچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جس انداز میں مہم چلائی جارہی ہے،اس کا پہلا مقصد ملک میں جمہوری نظام کو تلپٹ کرنا ہے، مگر افواج پاکستان کی موجودہ قیادت نےتمام تراشتعال انگیزی کےباوجود جس صبر اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔موجودہ عسکری قیادت نے واضح کردیا ہے کہ سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود طے کرنے چاہئیں ، یہی آئین و جمہوریت کا تقاضا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ اگر جمہوری عمل کو کوئی نقصان پہنچا تو پھر عمران خان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا،اشرافیہ نے قوم کو مفلوک الحال بناکر اس پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آکر کسی تحریک کا حصہ نہ بن سکیں۔سابق حکمراں جماعت پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر جس طرح ملک کے اداروں کے خلاف مہم جوئی شروع کی ہوئی ہے وہ حد درجہ افسوس ناک ہے، انکی مہم میں ملک توڑنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں جس سے قوم میں ٹوٹنے اور بکھرنے کا احساس گہرا ہوتا جارہا ہے،پڑھا لکھا نوجوان ملک چھوڑ کر جارہا ہے، ان حالات میں ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی جانب سے اپنے اپنے سوشل میڈیا گروپ کو اس انداز میں فعال نہیں کیا جارہا ہے جس کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی والے ایک جانب موجودہ انتخابات کو تسلیم نہیں کررہے جبکہ دوسری طرف تمام منتخب ایوانوں اور کے پی کےمیںحکومت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، روزانہ سیکورٹی اداروں کے افسر اورجوان ملک کی سلامتی پر قربان ہورہے ہیں۔ان حالات میں پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں اور حکومت سے بات چیت کیلئے تیار نہیں، وہ کس سے مذاکرات کے خواہش مند ہیں،جن اداروں پر الزامات لگارہے ہیں، شہداء کی یاد گاروں کو مسمار کرنے والوں سے کون مذاکرات کرسکتا ہے؟۔ پی ٹی آئی کو لاڈلا بنانے کا خمیازہ پوری قوم بھگت چکی ہے، اسی لئے اس جماعت کو حالیہ انتخابات میں قوم نے مسترد کردیا،اگر یہ جماعت اپنی سیاسی حکمت عملی میں مناسب اور ملکی مفاد کے مطابق تبدیلی نہ لائی تو اگلے انتخابات میں اس جماعت کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کےاقتصادی مشکلات کے دلدل میں پھنس جانے پر موجودہ حکومت ہی نہیں،بلکہ صنعت کار ،تاجر برادری، کاروباری طبقہ اور باشعور شہری گہری تشویش میں مبتلاہے۔جبکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو مزید تقویت دی جارہی ہے،پاکستان کو اپنی معیشت بہتر بنانے کیلئےفیصلہ کرنے میں غیر ملکی دبائو کا سامنا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیا مگر آج جبکہ پاکستان معاشی بحران سے دوچار ہے یہ ممالک حالات کی بہتری میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکلنےکیلئے ایران سے گیس کے معاہدے کی اشد ضرورت ہے مگر پابندی کا اشارہ دے کر پاکستان کو اس معاہدے سے روکا جارہا ہے،دوسری جانب بھارت ایران کیساتھ کئی ایک معاہدے کرچکا ہے۔دوہری پالیسی سے پاکستانی عوام میں بڑی طاقتوں کے حوالے سے بددلی جنم لے رہی ہے جس پر عالمی قوتوں کو توجہ دینا ہوگی۔بھارت پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کررہا ہے، افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کو ہر قسم کی حمایت مل رہی ہے،مگر دنیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔تاہم سخت حالات کے باوجود حالیہ چند دنوں میں حکومت نے ملک بھر میں پیٹرول اور گندم کی قیمتوں میں بڑی کمی کی ہےلیکن قیمتوں میں کمی سے صرف پنجاب میں عوام کو ریلیف مل رہا ہے، دیگر صوبوں کی حکومتیں مہنگائی اور گرانی کو روکنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اس کا نوٹس لیں اور تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کو عوام کومہنگائی سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ہدایت کریں۔ وزیر اعظم شہباز شریف دیگر صوبوں میں کرایوں میں کمی، روٹی اور بیکری آئٹم کی قیمتوںمیں کمی پر توجہ دیں، ریل اور جہاز کے ٹکٹوں میں بھی کمی کی جائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ریاست اس وقت جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے اس میں ہر جماعت کو ریاست سے کھلواڑ کے بجائے اسے بچانےکیلئے متحد ہونا پڑے گا۔عمران سمیت ہر ایک کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ ریاست ہی مقدم ہے،اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا،حکومت اور اپوزیشن کو یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان نے انہیں جس قدر نوازا ہےاب اسے واپس ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔اس وقت اپوزیشن اور حکومت میںورکنگ ریلیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی درجہ حرارت کم کیا جائے تاکہ ریاستی معاملات چل سکیںاور عوام کوبھی جمہوری نظام میں بے روگاری، مہنگائی، گرانی، بجلی، پانی گیس کی قلت سے نجات مل سکے۔

تازہ ترین