پاکستان اور چین نے 32مفاہمتی یادداشتوں کی صورت میں اپنے اقتصادی اشتراک کو مزید وسعت دے دی ہے۔ یادداشتوں پر دستخط وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین میں ہوا جو پاک چین بزنس فورم میں شرکت کے حوالے سے جاری ہے۔ میاں شہباز شریف اپنے پانچ روزہ دورہ چین کے دوسرے روز بدھ کو بیجنگ پہنچے تھے جہاں ان کی چینی صدر شی جن پنگ اور دوسرے سرکردہ رہنمائوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور مختلف شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں پر دستخطوں کی تقریب بھی ہوئی۔ تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے یہ سمجھوتے اپنی ہمہ گیری کے باعث دور رس فوائد و نتائج کے حامل ہیں۔ ایم او یوز کے عنوانات اور دیگر اشاروں سے واضح ہے کہ توانائی، آٹوموبائل، آئی ٹی، ادویہ سازی سمیت کئی شعبوںمیں تعاون بڑھے گا۔ چینی کمپنیوں نے پاکستان میں الیکٹرک بائیکس ، جدید زراعت میں سرمایہ کاری کیلئے بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے جبکہ دو لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کے تربیت دی جائے گی۔ الیکٹرانکس، گھریلو آلات، ٹیکسٹائل ، چمڑے ، جفت سازی، معدنیات کے میدانوں میں تجارت بڑھنے کے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔ اس ضمن میںوزیر اعظم شہباز شریف کا یہ بیان خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انہوں نے قرض کیلئے نہیں، کاروبار اور ترقی کیلئے یہ سفر کیا ہے۔ اس بیان سے اسلام آباد کی نئی حکمت عملی کی سمت واضح ہوتی ہے۔چین کے شہر شینزن میں پاک چین بزنس کانفرنس سے خطاب میں شہباز شریف نے یہ بات بھی کہی کہ چین کی ترقی سب کیلئے قابل تقلید اور مثالی ہے۔ انہوں نے پاکستانی کمپنیوں کو بار بار یہ مشورہ دیا کہ وہ چینی ماڈل اپنا ئیں اور اپنی مصنوعات کو بہتر انداز میں دنیا کےسامنے پیش کریں۔ اس باب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت چینی ماڈل اپنانےوالی کمپنیوں سے مکمل تعاون کرےگی۔ شہباز شریف نے بزنس کانفرنس کے انعقاد کو پاکستان کیلئے سنہری مواقع کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے پاکستانی کاروباری افراد کو مشورہ دیا کہ وہ چینی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر مشترکہ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معدنیاتی وسائل10ٹریلین ڈالر تک ہیں جبکہ ہماری بر آمدات کا حجم صرف30ارب ڈالر ہے۔ اس صورتحال میں بھی بہتری کا راستہ چینی ماڈل اپنانا ہی ہے ۔وزیر اعظم کے بیان سے واضح ہے کہ حکومت نے اس باب میں ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں پہلے ہی شروع کردی ہیں ۔جبکہ بیلٹ ایند روڈ انیشی ایٹو ترقی کی ضمانت ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں چینی باشندوں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے ہو اوے کمپنی کے ہیڈ کوارٹر اور چینی میوزیم کا دورہ بھی کیا اور کمپنی کوپاکستان کے مختلف شہروں، بالخصوص ایسے شہروں میں سیف سٹی منصوبے قائم کرنے کی ترغیب دی جن میں سی پیک منصوبوںپر کام ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی گفتگو سے واضح ہے کہ حکومت سرکاری دفاتر کو ترجیحی بنیادوں پر ڈیجیٹلائز کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔ ٹیکس کے نظام اور ای گورننس پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان شعبوں میں چینی کمپنیوں کیلئے وسیع مواقع موجود ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا چین کا یہ دورہ ایسے موقع پر جاری ہے جب پاک چین اقتصادی راہداری دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس مرحلے سے نہ صر ف پہلے سے طے شدہ منصوبوں کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے بلکہ نئے منصوبوں کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے۔ اس وقت، کہ 32 سمجھوتوں کی صورت میں سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھل رہی ہیں،کرپشن کے خاتمے ، اسمگلنگ کی روک تھام سمیت کئی اقدامات ضروری ہو گئے ہیں جن پر توجہ دی جا رہی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ آنے ولے مہینوں اور برسوں میں پاک چین سرمایہ کاری او رتجارت میں اضافے سمیت کئی سمتوں میںپیش رفت نظر آئے گی۔