• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس یوکرائن جنگ کے بعد دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر میں تبدیل ہو چکی ہے جس کے باعث دنیا بھر میں نئے اتحاد بن رہے ہیں اور نئی صف بندیاں ہور رہی ہیں جس میں چین کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ دنیا بھر میں چین کی دوٹوک حمایت کرنے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ چین ہے جس نے سعودی عرب ایران، عراق، شام سمیت پورے خلیج میں دوستی کا ایک نیا ماحول پیدا کر کے مشتر کہ معاشی، معاشرتی اور دفاعی حکمت عملی کی پالیسی کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پاکستان بھی اس میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ چین کا یہ اثرو رسوخ نہ صرف خلیج بلکہ ایشیا اور دیگر خطوں میں بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے 1950 میں چین کو تسلیم کیا۔ اس وقت پاکستان مسلم دنیا کا پہلا اور عالمی برادری کا تیسرا ملک تھا جس نے چین کو با قاعدہ تسلیم کیا۔ چین کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات کا آغاز 31 مئی 1951 میں ہوا ۔ سات دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تعلقات کے دوران کوئی ایک ایسا موقع بھی نہیں آیا جب چین نے علاقائی اور بین الاقوامی محاذ پر کھل کر پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہ کیا ہو۔ ستر سال سے زائد کے اس عرصہ میں کئی نسلیں جوان ہوئیں مگر ان میں خلوص محبت اور خیر سگالی کا جذ بہ ماند نہ پڑا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کوہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرے ہیں۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت ایک لاکھ سے زائد فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ پاکستان نے اپنے سے بڑے دشمن کا مقابلہ 60 ہزار فوج کے ساتھ کر کے اسے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ بھارت مزید فوج کے ساتھ پاکستان پر چڑھائی کر سکتا تھا لیکن چین نے تبت سرحد پر اپنی فوج کھڑی کر کے بھارت کو پیغام دیا کہ وہ مزید محاذآ رائی سے گریز کرے۔ یوں چین نے پہلی مرتبہ پاکستان کا کھلم کھلا ساتھ دے کر پاکستانی عوام کے دل جیت کر یہ دوستی ہمیشہ کیلئے امر کر دی۔ 02-2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا۔ بھارت آٹھ لاکھ فوج پاکستانی سرحد پر لے آیا۔ ایسے میں چین نے ایک اسکواڈرن جدید لڑاکا طیارے پاکستان کو فراہم کرتے ہوئے یہ بیان جاری کیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو چین پاکستان کے ساتھ مل کر جوابی کارروائی کرے گا۔ گیارہ ماہ بعد بھارت کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑ گئیں۔ چین نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کیلئے دفاعی منصوبوں میں تعاون کیا۔ 1990میں پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ چینی اسٹیشن سے خلا میں بھیجا گیا۔ اس تعاون کے تحت مئی 2024 میں آئی کیوب قمر چاند پر بھیجا گیا ۔ پاکستان کا ہر شہری اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ سی پیک پاکستان کی معاشی بقا کا منصوبہ ہے جس پر بھارت کی طرف سے واضح دھمکی آمیز بیانات بھی سامنے آچکے ہیں ۔ سی پیک کے آغاز کا سہرا چین کے صدرشی جن پنگ اور سابق وز یر اعظم محمد نواز شریف کو جاتا ہے جن کے دور میں اس منصوبے پر نہایت برق رفتاری سے کام ہوا۔ نواز شریف 28 مئی 1998کو ایٹمی دھماکوں کے موقع کی طرح اپنے عزم و ہمت کی روایت آگے بڑھاتے ہوئے سی پیک کے حوالے سے بھی کسی دھمکی اور دھونس سے مرعوب نہ ہوئے ۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی آئرن برادرز کے اس فولادی رشتے کو مزید آہنی بنا دیاہے۔ 8 فروری 2024 کے انتخابات میں کامیابی اور وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف ایک بار پھر عظیم بھائی چین کے ساتھ تعلقات کی مزید گہرائی ، قربت اور مضبوطی کیلئے کمر بستہ ہو چکے ہیں ۔ 4 سے 8 جون کاجاری دورہ چین اسی سلسلے کی کڑی ہے جو تین مراحل پر مشتمل ہے۔ چین کے صدرشی جن پنگ اور وزیر اعظم لی چیانگ نے اس دورے کی انہیں دعوت دی تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی بیجنگ میں صدرشی جن پنگ سے بالمشافہ ملاقات ہوگی جبکہ وزیر اعظم لی چیانگ کے ساتھ وفود کی سطح پر بات چیت بھی ہوئی۔ وفد نے بیجنگ کے علاوہ زبان اور شینزین کے شہروں کا دورہ بھی کیا۔ چین کے اعلیٰ حکام سے اہم ملاقاتیں بھی کیں۔ وزیر اعظم کے دورے کا ایک اہم پہلو تیل و گیس ، توانائی ، آئی ٹی ، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں کام کرنے والی سرکردہ چینی کمپنیوں کے کارپوریٹ ایگزیکٹوز سے ملاقاتیں تھیں۔ وزیر اعظم چین میں اقتصادی اور زرعی زونز کا بھی دورہ کررہے ہیں اور شینزن میں دونوں ممالک کے سرکردہ تاجروں، کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاروں کے ساتھ چائنا پاکستان بزنس فورم سے خطاب بھی کیا۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دورہ انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ایس آئی ایف سی کے فعال پلیٹ فارم سے زراعت، معدنیات، آئی ٹی، توانائی، دفاعی پیداوار کے جن ترجیحی شعبوں کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے، اُن میں ہماری ترقی کے حوالے سے چین کے ساتھ تعاون نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے دورے میں 32 ایم او یوز پر دستخط اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ چین نے روایتی اور غیر روایتی دونوں قسم کے شعبہ جات میں نہایت سبک رفتاری سے کامیابیوں کے کوہ ہمالیہ سرکئے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، آبی کفایت شعاری اور جدید طریقوں کو اپنا کر نہ صرف پیداوار میں اضافہ کیا بلکہ ان کے معیار اور برآمدی صلاحیت کو بھی بہتر بنا کر پوری دنیا میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان اقدامات کا فائدہ چین کے کسان، زراعت کو ہوالیکن ساتھ ہی ساتھ چین کی قومی معیشت اور مجموعی ترقی کو بھی چار چاند لگا دیئے۔ ایس آئی ایف سی کی پہلے سے جاری کاوشوں میں اگر چین کی طرف سے تعاون بھی شامل ہو جائے تو زرعی شعبے میں ہماری ترقی کی رفتار دو گنا ہو سکتی ہے۔ آج چین محض ہمارا ہمسایہ نہیں بلکہ دنیا میں ہر شعبے میں ترقی کی ایک آزمودہ مثال بھی ہے۔ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی روشنی پوری دنیا پر پڑ رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے سے دونوں آئرن برادر زمزید قریب ہوں گے بلکہ چین کی ترقی کی کرنیں پاکستان میں غربت ، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے اندھیروں کو مٹانے میں بھی مددگار ثابت ہونگی۔

تازہ ترین