کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں قومی کرکٹ ٹیم کیلئے پاکستانی قوم کے جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں ۔ خصوصاً جب مقابلہ روایتی حریف بھارت سے ہو تب تو بچے بوڑھے سب ہی اپنی ٹیم کی کامیابی کے شدت سے آرزومند ہوا کرتے ہیںلیکن افسوس کہ ایک مدت سے قومی ٹیم بالعموم اپنے ہم وطنوں کو مایوس کرتی چلی آرہی ہے۔ پھر بھی ہر نئے مقابلے کے موقع پر لوگ اپنے شاہینوں سے اچھی کارکردگی کی امیدیں باندھ لیتے ہیں لیکن عموماً انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ گزشتہ شب نیویارک میں ہونیوالے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاک بھارت ہائی وولٹیج میچ میں ہوا ‘ امریکہ سے اپنا پہلا میچ ہارنے کے بعد ہماری قومی ٹیم بھارت سے بھی ہار گئی حالانکہ پاکستانی بولروں نے تمام بھارتی کھلاڑیوں کو آخری اوور سے پہلے پویلین بھیج کراورمحض 119 رنز تک محدود رکھ کر اپنے بلے بازوں کیلئے 120 رنز کا آسان ہدف مہیا کردیا تھا۔ بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں یہ بھارت کا سب سے کم اسکور تھا تاہم کوئی بھی پاکستانی بیٹر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرسکا۔ رضوان کی وکٹ سے کھیل کا پانسہ پلٹ گیا۔ 120کے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم سات وکٹوں پر113 ہی رن بناسکی۔ یوں بظاہر بآسانی جیتا جاسکنے والا میچ پاکستانی بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کی نذر ہوگیا۔ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے اس شکست کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے کہ لگتا تھا کہ کرکٹ ٹیم کی چھوٹی سرجری سے کام چل جائے گا لیکن آج کی انتہائی خراب کارکردگی کے بعد یقین ہوگیا ہے کہ ٹیم میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ ان کے اس اظہار خیال پر ’’ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ٹیم میں جن خامیوں کی نشان دہی ماہرین کی جانب سے کی جارہی تھی ان کا تدارک کرلیا گیا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ قومی ٹیم ورلڈ کپ میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتی لیکن اب ایسا ہونے کے امکانات تقریباً معدوم ہوچکے ہیں۔