• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نو برس قبل کراچی میں موسمِ گرما نے جو قیامت ڈھائی تھی اس کےبعد سے اب ہر برس نیا سال شروع ہوتے ہی موسمِ گرما کے بارے میں خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بننے لگتی ہیں۔ اس برس بھی تسلسل کے ساتھ ایسی خبریں ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچ رہی ہیں جن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی کراچی میں شدید گرمی پڑنے کا امکان ہے۔ 

ماہرینِ موسمیات نےگرمی کی شدّت میں غیر معمولی اضافے کی پیش گوئی کی تھی ،جو درست ثابت ہوئی۔ موسمِ گرما کی ابتدا سے اب تک شہر میں شدید گرمی کی کئی لہریں آچکی ہیں ۔ لیکن ابھی امتحان کے مزید مراحل باقی ہیں۔

ماہرین نے موسم کی شدت میں اضافے اور شدید گرمی کی کئی لہریں وقفے وقفے سے آنے کی پیش گوئی کی ہے۔ یاد رہے کہ2015 میں جون کے دوسرے پندر ہواڑے میں کراچی میں شدید گرمی پڑی تھی جس کی وجہ سے سرکاری اعدادوشمارکے مطابق 1260افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے کراچی کے باسی اب ہر موسمِ گرما میں طرح طرح کے خوف اور خدشات کا شکار رہتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے متعلق امور کے ماہرین 2015میں پڑنے والی شدید گرمی کے بارے میں کہتے ہیں کہ بلاشبہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے بالکل بھی شک نہیں کہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بڑھیں گے اور بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی میں سائنس دانوں نے یہی پیش گوئی کی تھی۔لہذا کراچی کے باسیوں کا خوف بلا وجہ نہیں ہے۔ نو برس قبل کی یادیں وہ کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ 

انہیں یاد ہے کہ اس وقت کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں تھا۔شہر کو بجلی کی فراہمی کے ادارے نے یہاں کے باسیوں پر جو ظلم ڈھایا اس کا آج تک کسی نے کوئی حساب نہیں لیااور تاحال اس بارے میں تیکنیکی مو شگا فیوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں قیمتی جانیں گئیں، مگر کسی سیاسی جماعت نے ان کے لیےایک دن کی بھی ہڑتال نہیں کی۔ 

کسی کو سزا ملی اور نہ کسی نے ذمے داری قبول کرکے استعفی دیا۔کراچی کے شہری آج بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ لوگ کسی کے باپ، بھائی، بیٹے یا شوہر نہیں تھے؟ کیا وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی نہیں تھے؟

بہت کچھ بدلنا ہوگا

پاکستان اوربھارت میں اس وقت قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو درجہِ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور اس صورت حال کا سامنا دور دراز صحرائی علاقوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح کی گرمی میں کچھ خطرات تو ایسے ہیں جن کا لوگوں کو ٹھیک سے علم ہی نہیں۔ پاکستان اور بھارت میں گرمی کی لہر کوئی نئی بات نہیں۔ نئی بات یہ ہے کہ ہر سال درجہ حرارت میں بہ تدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں شدید گرمی کا آغاز مئی کے وسط سے ہی ہو چکا تھا۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ 23 مئی سے ملک کے بیش تر علاقوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں ہائی پریشر کی موجودگی کے سبب گرمی کی لہر مئی کے اواخر تک جاری رہ سکتی ہے۔ مئی کے آخری ہفتے میں پنجاب، سندھ، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں درجہ حرارت معمول سے چار سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔

گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجۂ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی متجاوز ہوا۔ لاہور میں درجۂ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔

اس برس بھی کراچی میں وقفے وقفے سے شدید گرمی کی لہریں آنے کے خدشات ہیں، مگر کیا ہم نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے؟

ماہرین کے مطابق اگردرجۂ حرارت 32سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہو تو ہیٹ کریمپس اور گرمی کے باعث توانائی میں کمی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کا مطلب خطرہ ہے۔ بہت زیادہ درجہ حرارت میں ہیٹ اسٹروک، اعضا کا کام کرنا چھوڑ دینے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ 

بعض ماہرینِ موسمیات گرمی کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درجہ حرارت میں 5 سے 10 ڈگری زیادہ ہونے کا رحجان انتہائی تشویش ناک ہے۔ شدید گرمی کی لہرسخت ماحولیاتی خطرہ ہے۔

ان دنوں ملک کے مختلف علاقوں میں جو درجہ حرارت ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ وجود کا مسئلہ ہے۔ اس وقت ہم جو ریکارڈ گرمی دیکھ رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، خاص طور سے کم عمر لوگوں، بزرگوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی قوت مدافعت کم زور ہے۔

پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سی ہی شہریوں کو خبردار کردیا تھا۔ اس کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کی ہدایت جاری کر دی تھی۔این ڈی ایم اے نے ہیٹ ویوو گائیڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شایع کیا جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کے لیے سرکاری اور انفرادی سطح پر اختیار کرنے کی تدابیر بتائی گئی ہیں۔

کراچی ایک بھٹّی

نو برس قبل جون کے مہینے میں شہر میں آنے والی آفت کے بارے میں ماہرینِ آب و ہوا کا کہنا تھا کہ یہ شدید گرمی urban heat island effect کی وجہ سے تھی، جس میں درجہ حرارت ہوتا تو 45 ڈگری ہے، لیکن محسوس 50 ڈگری ہوتا ہے، کیوں کہ شہر میں پھنسی ہوئی گرم ہوا باہر نہیں نکل پاتی۔

ان کے مطابق شہر ایک بھٹی کی طرح ہے، جو گرمی کو روک لیتا ہے اور اسے باہر نہیں نکلنے دیتا۔ کراچی جتنا ہی درجہ حرارت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سندھ کے دیگرشہروں سے بھی رپورٹ ہوا تھا، لیکن اس نے لوگوں کی جانیں اس طرح نہیں لیں جس طرح کراچی میں لیں، کیوں کہ وہاں گرم ہوا کے پھیلنے اور باہر نکلنے کے لیے جگہ موجود ہے۔

شہر بے ہنگم ہوچکا

شہری منصوبہ بندی کے ممتاز ماہر عارف حسن کے مطابق سمندر کی ہوا کراچی کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن یہ نعمت اسی وقت فائدہ مند ہوسکتی ہے جب اسے شہر میں داخل ہونے کے لیے مناسب راستہ ملے اور یہ محلّوں اور سڑکوں سے باآسانی گزرسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ شہر میں عمارتوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھا جائے۔

کراچی میں تقریبا نو ماہ تک سی بریز جنوب مغرب سے آتی ہے۔ نومبرکے اواخر سے جنوری، فروری تک سمندری ہوا کم ہوتی ہے۔ لیکن ان مہینوں میں یہاں موسم ایسا ہوتا ہے کہ اس سے کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ 

ان مہینوں میں شمال اور شمال مغرب سے بلوچستان کی طرف سے ہوا کراچی آتی ہے۔ کراچی کےان موسمی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کے پرانے باسیوں نے شہر کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان کی منصوبہ بندی کا محور سمندر کی ہوا کو اپنے گھروں اور محلّوں میں لانا اور ان مقامات سے گزارنا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے گھروں میں بادگیر بنارکھے تھے۔

انگریزوں نے یہاں تعمیرات شروع کیں تو گھروں اور عمارتوں کا رخ مغرب کی جانب رکھا۔ مثلا ڈی جے کالج کی عمارت کو لے لیں۔ اس کا رخ اور برآمدہ مغرب کی جانب ہے۔ ان کی بنائی ہوئی زیادہ تر عمارتوں کا رخ مغرب یا جنوب کی طرف ہےاور ان میں برآمدے بھی ہیں۔

سول لائنز کے مکانات بھی اسی طرز پر بنائے گئے تھے۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ صورت حال بد تر ہوتی گئی۔ اب شہر کے بیش تر علاقوں میں عمارتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے رہائشی علاقوں سے گرمی مناسب طور پر خارج نہیں ہوپاتی۔خوش قسمتی سے شہر کی سڑکیں کافی چوڑی ہیں لہذا وہاں سے کافی حد تک حرارت خارج ہوجاتی ہے۔

عارف حسن کے مطابق کراچی کے اردگردبعض رہائشی منصوبوں کی وجہ سے شہر کا موسم یک سر بدل جانے کا خدشہ سو فی صد درست نہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ وہاں سے گزرنے والی ندیوں اور نالوں پر تعمیرات ہونے سے کراچی میں سیلاب آنے کے خطرات میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔

دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ زرعی اور زرخیز زمین کو کنکریٹ لینڈ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کراچی کا 1975۔1978کا ماسٹر پلان بہت جامع تھا۔ اس میں کراچی اور اس کے نواح میں زراعت کو ترقی دینے کے لیے اراضی رکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد کراچی کا ماحول بہتر بنانا تھا۔

کراچی ڈیولپمنٹ پلان 2000 میں بھی ایسا کر نے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ملیر سے زراعت کا تقریبا صفایا ہوگیا۔ کاٹھور اور ڈملوٹی کے زرعی رقبے بھی سمٹ گئے۔ اس صورت حال کی وجہ سے کراچی کی ماحولیاتی ڈھال بری طرح متاثر ہوئی۔

دوسری جانب ہم نے تمر کے جنگلات کی پندرہ ہزار ہیکٹر زمین ہتھیالی حالاں کہ وہاں کی جانے والی ترقیاتی سرگرمیاں ایسا کیے بغیر بھی کی جاسکتی تھیں۔ لیکن اشرافیہ اور مفاد پرستوں کا ندیدہ پن تمر کے جنگلات کو ہڑپ کرگیا۔

عارف حسن کے بہ قول کراچی اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان 20۔20کی سفارشات میں کہا گیا تھاکہ کیچڑ یا دلدل والی زمین(مڈفلیٹ) اور تمر کے جنگلات کی اراضی کو ری کلیم نہیں کیا جائے گا،ہائی واٹر مارک اور تعمیرات کے درمیان ڈیڑھ سو فیٹ کا فاصلہ رکھا جائے گا اور پورے ساحل پر لوگوں کو آزادانہ طور پر جانے کی اجازت ہوگی۔ 

ساحلی شہروں کا یہ مسلمہ عالمی معیار ہے۔ تھائی لینڈ اور سری لنکا میں پہلے اس ضمن میں سخت قوانین نہیں تھے، لیکن بعد میں وہاں اس بارے میں سخت قوانین بنے جن کی رو سے اب وہاں مزید کوسٹل ڈیولپمنٹ نہیں ہوسکتی۔ کراچی کی سابق شہری حکومت نے جو پلان بنایا تھا وہ اس کی حدود میں آنے والے علاقے میں نافذ ہوسکتا تھا۔ لیکن وہ پورے شہر کے مفاد میں تھا۔

مستقبل کے لیے لائحہ عمل

ماحولیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے شہروں اور گھروں میں جس طرح کا انفرااسٹرکچر ہے اور جس طرح کی ان کی بناوٹ ہے وہ اس طرح کے بدلتے موسم کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ایسے میں ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ پھر شہروں میں قیامت خیز گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ اربن پلاننگ اور عمارتوں کی تعمیر میں ماحول دوست یا اِیکو فرینڈلی طریقے رائج کیے جائیں۔

آبادیوں میں سبز قطعات، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے باقاعدہ انتظام کے ساتھ سولر پینلز کی تنصیب، تجارتی، تفریحی اور دیگر شہری سہولتوں کی رہائشی علاقوں کے قریب فراہمی اس ضمن میں بہت اہم ہیں۔ 

اس کے علاوہ گھر کے اندر اور باہر ہریالی جیسے اقدامات گرمی کی شدت کو خاصی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ عمارتوں میں ماحول دوست اور اینرجی ایفیشینٹ کنسٹرکشن میٹریل کا استعمال اور روشنی اور تازہ ہوا کی آمد و رفت یقینی بنانے کے لیے گرین بلڈنگ کوڈ پرووِیژنز سے راہ نمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

اگر گرمی کی لہریں اب بار بار آیا کریں گی، تو انہیں برداشت کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ ماحولیات اور شہری منصوبہ بندی کے ماہرین اس ضمن میں کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ شہر میں عمارات کے ڈیزائنز اور ان میں استعمال ہونے والے مٹیریل پر دوبارہ غور کیا جائے۔ اونچی عمارتوں نے ہوا کے قدرتی راستے روک دیے ہیں۔ ٹریفک کی گرمی نے بھی مسئلے کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔

ماہرین ِ ماحولیات کے مطابق کراچی میں بڑے پیمانے پر درختوں کی بے دریغ کٹائی سے شہر کا موسم تبدیل ہوگیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں بارشوں میں کمی اور گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سایہ دار درختوں کی تیزی سے کٹائی اور عمارتوں اور گاڑیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔

کنکریٹ کی عمارتوں نے شہر کا دم گھونٹ دیا ہے۔ شہر میں پھیلی کنکریٹ کی عمارتوں اور تارکول سے بنی سڑکوں کا جال گرمی کی شدت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کراچی دراصل صحرا ہے لہذا یہاں دھوپ کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ سڑکوں کے کنارے سایہ دار درخت لگانا ہے، جن کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔

ماہرین کے مطابق کراچی کو نیم کے درختوں کی ضرورت ہے، جو اس سخت آب و ہوا کو جھیل سکیں جس نے 1980 کی دہائی کے بعد سے کراچی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2013 سے اب تک کراچی میں تقریبا پچاس ہزار سے زاید درخت کاٹے جاچکے ہیں۔ 

شہرکے یہ پرانے درخت مختلف منصوبوں کی تعمیرکے دوران کاٹے گئےاور منصوبوں اور وعدوں کے مطابق متعلقہ سرکاری اداروں اور نجی شعبے کے جانب سے شجرکاری نہیں کی جا سکی جس کی وجہ سے شہر کا ماحولیاتی توازن خراب ہوچکا، آلودگی میں اضافہ ہوا، موسمی تبدیلی اور گرمی کی شدید لہر کا شہر کو سامنا ہے اور اس کا درجہ حرارت ہر سال بڑھ رہا ہے۔